فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟، کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو تو کیا صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے؟، ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے بہت ریسرچ کی ایسا کوئی سیکشن دنیا میں نہیں، ہمارا آئین کا آرٹیکل 175 تین آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی ٹرائل کے وقت سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟۔ سلمان اکرم راجا نے کہا ایف بی علی کیس کا 1962ء کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا، ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالت نے بھی قرار دیا کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کررہا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے وزارت دفاع کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی نظیر ایف بی علی کیس کو 1962ء کے آئین کا نتیجہ قرار دیا، انہوں نے کہا یہ وہی آئین تھا جس میں جنرل ایوب نے خود کو اختیارات دیئے اور حبیب جالب نے لکھا ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اس اپیل میں ہم مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرسکتے ہیں؟۔
سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 80-1977ء کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لاء میں سزا والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 10-8 سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسڑیشن کیخلاف ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کیخلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بینادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم ایک فیصلے کے خلاف اپیل سن رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا شکر ہے اب بڑھا دیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے بہت ریسرچ کی ایسا کوئی سیکشن دنیا میں نہیں، ہمارا آئین کا آرٹیکل 175 تین آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے، بھارت میں ہمارے آئین کے آرٹیکل 175 تین جیسی کوئی چیز شامل نہیں، بھارت میں اس کے باجود محض اصول کی بنیاد پر عدالتوں نے ٹرائل کی آزادی کو یقینی بنایا ہے، ہمارا تو آرٹیکل 175 تین آزاد ٹرائل کا مکمل مینڈیٹ دیتا ہے، آزاد ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے، فوجی عدالتوں میں نہیں۔