کہتے ہیں کہ تاریخ کے دریاؤں میں بہت سے موتی چھپے ہوتے ہیں، مگر کوئی ایک ایسا ہیرا بھی گزرا ہے جس کی چمک نے زمانے کے سینے پر ایک ایسا نقش چھوڑا کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اس کی روشنی سے انسانیت کا کارواں منور ہے۔ یہ ہیرا کوئی اور نہیں، وہی سقراط ہے جس نے ایتھنز کی گلیوں میں چل کر بھیڑ کو نہیں، بلکہ حق کی تلاش کو اپنا راستہ بنایا۔ جس نے زہر کے پیالے کو ہاتھوں میں تھام کر بھی یہ سبق دیا کہ موت سے ڈرنا نہیں، بلکہ بے حقیقت زندگی سے خوف کھانا چاہیے۔
یہ پانچویں صدی قبل مسیح کی بات ہے جب ایتھنز کی سرزمین پر ایک بچہ پیدا ہوا جس کے نصیب میں جہاں بہت سے کام تھے، وہیں ایک عظیم کام یہ بھی تھا کہ وہ فلسفے کے سپنوں کو حقیقت کے آئینے میں دیکھے۔ سقراط کا باپ سنگ تراش تھا اور ماں دایہ۔ دونوں ہی دستِ تقدیر کے اس کارخانے میں اپنے اپنے فن کے مُہرے تھے۔ باپ نے پتھروں کو تراش کر مجسمے بنائے، ماں نے گودوں کو سنوار کر انسان۔ مگر سقراط نے تو پتھروں اور گودوں سے آگے دیکھا۔ اس نے روحوں کو تراشنے کا ہنر سیکھا۔ جوانی میں جب اس کے ہم عمر لڑکے جنگی داستانیں سناتے، وہ فکر کی وادیوں میں گم رہتا۔ کہتے ہیں اس نے جنگوں میں بھی حصہ لیا، مگر اس کی تلوار سے زیادہ اس کی زبان تیز تھی اور زبان سے زیادہ اس کا ذہن۔ جو زخم تلوار نہ لگا سکی، وہ اس کے سوالوں نے لگائے۔
فلسفے کی دنیا میں سقراط کا اندازِ بیاں ایسا تھا جیسے کوئی دریا بول رہا ہو۔ وہ سوالوں کے تیر چلاتا اور جوابوں کے تھپیڑے کھاتا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی مسئلے کو اس طرح کھولتا جیسے کوئی پھول کی پتیاں الگ کرتا ہو۔ ایک دن وہ ایک کمہار کی دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ کمہار مٹی کو گھماتا، ہاتھوں کی جنبش سے ایک لوندے کو مرتبان بنا دیتا۔ سقراط نے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے اپنے دوست سے پوچھا، "یہ مرتبان کہاں سے آیا؟" پھر خود ہی جواب دیا، "یہ تو کمہار کے ذہن میں تھا۔ ہاتھوں نے صرف شکل دی۔" یہیں سے اس نے سیکھا کہ ہر چیز پہلے ذہن میں جنم لیتی ہے، پھر ہاتھوں میں۔ اس نے فلسفے کو بھی اسی طرح تراشا۔ سوال کیا، جواب دیا، اور تضادات کو بے نقاب کیا۔
اس کا ایک شاگرد افلاطون تھا جس نے سقراط کی باتوں کو قلمبند کیا۔ افلاطون کہتا تھا کہ سقراط پر کبھی کبھی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ وہ گھنٹوں کسی ایک جگہ کھڑا رہتا، آنکھیں بند کرکے۔ پھر اچانک بیدار ہوتا اور کہتا، "میں نے سنا ہے۔" شاگرد حیران ہوتے، "کیا سنا؟" وہ کہتا، "ضمیر کی گھنٹی بجی ہے۔ دیوتا بول رہے ہیں۔" سقراط کو یقین تھا کہ اس کے اندر ایک الہامی آواز ہے جو اسے نیکی کی راہ دکھاتی ہے۔ یہ آواز نہ تو کانوں سے سنی جاتی تھی، نہ آنکھوں سے دیکھی جاتی تھی۔ یہ تو روح کی زبان تھی، جسے وہ سمجھتا تھا۔
سقراط کے نظریات کو دیکھیں تو وہ انسانی روح کی عظمت کا گیت گاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ روح جسم کے پنجرے سے ماورا ہے۔ موت سے ڈرنا بے وقوفی ہے، کیونکہ موت تو پنجرے کا ٹوٹنا ہے، روح کی پرواز کا آغاز۔ وہ کہتا تھا، "جہالت اندھیرے کا کوا ہے، جو علم کی روشنی سے بھاگتا ہے۔" اس کے نزدیک نیکی اور بدی کا فرق علم اور جہالت میں تھا۔ انسان برا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ برا ہونا چاہتا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ جہالت کے دلدل میں پھنسا ہوتا ہے۔ سقراط کی نظر میں ظلم کرنا، ظلم سہنے سے بدتر تھا۔ کیونکہ ظلم کرنے والا اپنی روح کو زنگ آلود کرتا ہے، جبکہ ظلم سہنے والا صاف دل رہتا ہے۔
مگر ایتھنز کی عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا۔ الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو بگاڑتا ہے اور دیوتاؤں کو نہیں مانتا۔ سقراط نے عدالت میں کہا، "میں ایک مکھی ہوں جو تمہاری سوئی ہوئی کشتی کو کاٹتا ہوں تاکہ تم جاگو۔" مگر عدالت نے اس کی بات نہ سُنی۔ موت کی سزا سنائی گئی۔ زہر کا پیالہ لایا گیا۔ سقراط نے پی لیا۔ اس کے آخری لمحات میں شاگرد رو رہے تھے۔ اس نے کہا، "رونا مت۔ میں نے سچ کی خاطر یہ پیالہ پیا ہے۔ موت سے ڈرو مت، کیونکہ موت یا تو ایک گہری نیند ہے یا نئی دنیا کا دروازہ۔"
سقراط چلا گیا، مگر اس کی باتوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ کہتا تھا، "جاننا یہ ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے۔" یہ جملہ آج بھی علم کی بنیاد ہے۔ اس نے انسان کو سکھایا کہ سوال کرنا ہمت کا کام ہے۔ سچ کی تلاش میں نکلنا بہادری۔ وہ فلسفے کا وہ درویش تھا جس نے سلطنتِ علم کے دروازے کھولے۔ آج بھی جب کوئی استاد سوال کرتا ہے، تو سقراط زندہ ہو جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ستارے ٹوٹ جاتے ہیں، مگر ان کی روشنی ہزاروں سال تک سفر کرتی ہے۔ سقراط کا ستارہ بھی ٹوٹا، مگر اس کی روشنی سے آج بھی فکر کے چراغ روشن ہیں۔ وہ زہر کا پیالہ پی کر بھی امر ہو گیا۔ کیونکہ حق کی راہ پر چلنے والے کبھی نہیں مرتے۔ وہ تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ کتابوں کے اوراق میں، فلسفے کے سبق میں، اور انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں۔