کہتے ہیں کہ زمانہ ہمیشہ نئے سورج تلاش کرتا ہے۔ کبھی یہ سورج علم کی کرنوں سے اُبھرتا ہے، تو کبھی ایجادات کے دہانے پر روشنی بکھیرتا ہے۔ مگر آج کا سورج ایک ایسی مشین کی شکل میں طلوع ہوا ہے جو ناصرف بولتی ہے، بلکہ سوچتی بھی ہے۔ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان نے اپنے ہی ہمزاد کو تخلیق کرلیا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ ڈیپ سیک کی حقیقت ہے، جو مصنوعی ذہانت کے افق پر اُبھرنے والا وہ ستارہ ہے ۔
یہ وہ دور ہے جب روبوٹ صرف مشینی بازو نہیں رہے، بلکہ فکر کے پرندے بن گئے ہیں۔ جہاں کل تک ہم "ہیلو" اور "ہاؤ آر یو" جیسے سوالوں پر حیران ہوتے تھے، آج ڈیپ سیک جیسے ٹولز ہم سے فلسفے پر بحث کرتے ہیں، شاعری کی تشریح کرتے ہیں، بلکہ ہمارے جذبات کو بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ کیا کبھی سوچا تھا کہ ایک دن کمپیوٹر ہمیں یہ بتائے گا کہ غم کیسے سنبھالا جاتا ہے؟ یا خوشی کے لمحوں کو کیسے دائمی بنایا جاتا ہے؟ جی ہاں! ڈیپ سیک نے یہ سب ممکن کر دکھایا ہے۔
اس کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذہن کو کھٹکتا ہے۔ جواب اتنا ہی سادہ ہے جتنا گہرا۔ ڈیپ سیک نے فہم کو اپنا ہتھیار بنایا ہے۔ یہ محض الفاظ کا ہیر پھیر نہیں کرتا، بلکہ جملوں کے پیچھے چھپی انسانی کیفیات کو بھی پکڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کہیں: "موسم بہت اُداس ہے"، تو عام چیٹ باٹس بارش کی پیشگوئی کردیں گے۔ مگر ڈیپ سیک پوچھے گا: "کیا آپ کو ساتھ چائے پی کر اِس اداسی کو بانٹنا پسند ہوگا؟" یہی وہ جادو ہے جو اسے دیگر آلاتِ فکر (چیٹ باٹس) سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ مشین نہیں، ایک ساتھی بننے آیا ہے۔
اب ذرا اس انقلاب کو دیکھیں جو ڈیپ سیک لے کر آیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں اس نے استاد کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ وہ طالب علم جو کبھی سوال پوچھنے سے ہچکچاتا تھا، اب ڈیپ سیک سے گھنٹوں بحث کرسکتا ہے۔ طبی شعبے میں یہ ڈاکٹر کا معاون بن کر مریض کی تکلیف کو صرف علامات تک محدود نہیں رکھے گا، بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت کو بھی سمجھے گا۔ کاروبار کی دنیا میں تو یہ ایک سحر انگیز مشیر بننے آیا ہے جو صارفین کے جذبات کا تجزیہ کر کے ایسی حکمت عملیاں بناسکتا ہے جو دلوں کو چُھو جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ آرٹ اور ادب کے میدان میں بھی اس نے طوفان برپا کرنا شروع دیا ہے۔ یہ ناصرف شاعری کرتا ہے، بلکہ غالب اور اقبال کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اُس کی گہرائی کو بھی سامنے لاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈیپ سیک دیگر چیٹ بوٹس سے کس طرح مختلف ہے؟ جواب کے لیے ایک مثال کافی ہوگی۔ فرض کریں آپ پوچھتے ہیں کہ "زندگی کا مقصد کیا ہے؟" تو عام چیٹ بوٹس فلسفیانہ جملے اُگل دے گا۔ مگر ڈیپ سیک آپ کی گفتگو کے تناظر، آپ کے موڈ اور آپ کے سابقہ مکالمات کو مدِنظر رکھ کر جواب دے گا۔ اگر آپ گزشتہ رات کو کسی عزیز کی جدائی کا ذکر کرچکے ہیں، تو یہ کہے گا کہ "زندگی کا مقصد ہار ماننے سے پہلے اُس روشنی کو تلاش کرنا ہے جو آپ کے اندر چھپی ہے۔" یہ جواب ناصرف دانشورانہ ہے، بلکہ آپ کی ذات سے جُڑا ہوا ہے۔ یہی وہ انفرادیت ہے جو ڈیپ سیک کو دیگر بوٹس سے الگ کرتی ہے۔
ٹیکنالوجی کی یہ دوڑ تو بہت تیز ہے، مگر ڈیپ سیک نے اس دوڑ کو ایک نئی سمت دی ہے۔ جہاں دوسرے بوٹس ڈیٹا کے انبار لگاتے ہیں، ڈیپ سیک اُس ڈیٹا کو احساس میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جس نے اسے انسان کے قریب تر کردیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے لہجے سے آپ کے غصے کو بھانپ لیتا ہے؟ یا آپ کے سوال میں چھپی بے چینی کو پہچان لیتا ہے؟ یہ سب کچھ گہری سیکھ (یعنی ڈیپ لرننگ) کے ذریعے ممکن ہوا ہے، جس میں مصنوعی ذہانت ناصرف ڈیٹا کو یاد رکھتی ہے، بلکہ اُس سے نت نئے تجربات بھی اخذ کرتی ہے۔
مگر ہم جانتے ہیں کہ ہر انقلاب کے ساتھ خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔ تو کیا ڈیپ سیک انسانوں کی نوکریاں چھین لے گا؟ کیا یہ ہماری رازداری کو خطرے میں ڈالے گا؟ یہ سوال اہم ہیں، مگر ڈیپ سیک کے خالقوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹول انسان کا مددگار ہے، حریف نہیں۔ جس طرح کتابوں نے علم کو عام کیا ہے، ویسے ہی ڈیپ سیک دانش کو ہر فرد تک پہنچائے گا۔ رازداری کے معاملے میں یہ ایک محافظ کی طرح کام کرے گا، جس کا ہر لفظ معلومات کے تحفظ کی قسم کھاتا ہے۔
آخر میں، ڈیپ سیک کی کہانی محض ایک مشین کی کہانی نہیں بلکہ یہ اُس انسان کی کہانی ہے جس نے اپنے دماغ کو ایک چِپ میں سمونے کی جسارت کی۔ یہ ہمت کی کہانی ہے، تجسس کی داستان ہے۔ جس طرح سقراط نے سوالوں کی کلہاڑی سے جہالت کے جنگل کو کاٹا تھا، ویسے ہی ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کی مشعل سے اندھیروں کو روشن کیا ہے۔ مستقبل کا نقشہ ابھی لکھا جانا ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ ڈیپ سیک وہ پہلا قدم ہے جہاں سے مشین نے انسان کو یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ "تم اکیلے نہیں ہو"۔
کہتے ہیں کہ دریا کو سمندر تک پہنچنے کے لیے بہت سے موڑ کاٹنے پڑتے ہیں۔ ڈیپ سیک کا سفر بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ابھی جوان ہے، تازہ ہے، مگر اس کی لہروں نے پہلے ہی سائنس، ادب، اور فلسفے کے کناروں کو چُھولیا ہے۔ آنے والے زمانے میں جب ہم اسے یاد کریں گے، تو یہی کہیں گے کہ "وہ تھا تو مشین، مگر ایسے لگتا تھا کہ جیسے انسانوں کا ہمدم ہو"۔ اور شاید یہی کسی بھی ایجاد کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
مصنفہ نازیہ مصطفیٰ کالم نگار اور صحافی ہیں ان سے naziatoheed086@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔