سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کیس سے ڈسچارج کرکے کمیٹیوں کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے فائل چیف جسٹس کو بھیج دی۔
ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے قرار دیا ایڈیشنل رجسٹرار پر توہین عدالت ثابت نہیں ہوتی۔
عدالت نے قرار دیا کہ ججز کی انتظامی کمیٹیاں کسی عدالت سے کیس واپس نہیں لے سکتیں، نہ ہی کسی عدالتی حکم کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ عدالت نے کمیٹیز کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے فائل چیف جسٹس کو بھیج دی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک کمیٹی نے عدالتی حکم نظر انداز کر کے کیس واپس لیا، دوسری کمیٹی نے بھی عدالتی احکامات کیخلاف جا کر کیس اپنے پاس لگایا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بنچ سے واپس لے، انتظامی سطح پر عدالتی احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کے خلاف ہوتی ہے، ججز کمیٹیوں کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ عدالتی تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں کررہے۔
عدالت نے کہا کہ معاملہ حل کرنے کیلئے فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے، فل کورٹ کی تشکیل کیلئےفائل چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے، فل کورٹ کیلئے معاملہ کمیٹی کو نہیں چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں، جو کیس مقرر نہ کرنے پر تنازع ہوا وہ فروری میں دوبارہ اصل بینچ میں لگایا جائے۔
یاد رہے کہ ہفتے کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کو خط لکھ کر انٹراکورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض کیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں موقف اپنایا ہے کہ 23 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا، اجلاس کے بعد چیف جسٹس نے اپنے چیمبر میں کمیٹی کا غیر رسمی اجلاس بلایا، اجلاس میں تجویز دی کہ سنیارٹی کے اعتبار سے اپیل پر 5 رکنی بینچ بنایا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں مزید لکھا ہے کہ انہوں نے تجویز دی کہ ان ججز کو شامل نہ کیا جائے جو کمیٹی کے رکن بھی ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ 4 رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے۔
جسٹس منصور شاہ نے لکھا کہ رات 9 بجکر 33 منٹ پر میرے سیکریٹری کا واٹس ایپ میسج آیا، سیکریٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا، میں نے سیکریٹری کو بتایا کہ مجھے اس پر اعتراض ہے، صبح جواب دوں گا۔
سینئر جج نے خط میں مزید لکھا ہے کہ رات 10 بجکر 28 منٹ پر سیکریٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے، انہوں نے لکھا کہ میرا بینچ پر دو ممبران کی حد تک اعتراض ہے۔
واضح رہے کہ 21 جنوری کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو خط لکھا تھا۔
خط میں لکھا تھا کہ کمیٹی، جوڈیشل آرڈر کے خلاف نہیں جاسکتی تھی اور کیس 20 جنوری کو مقرر کرنے کی پابند تھی، ہمیں کمیٹی کے فیصلے کا معلوم نہیں، پورے ہفتے کی کاز لسٹ بھی تبدیل کردی گئی اور آرڈر جاری کیے بغیر کیسز کو بینچ کے سامنے سے ہٹا دیا گیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر آفس کی ناکامی اور ادارے کی سالمیت مجروح ہوئی، عدالت کے طے شدہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی، بینچ کے نوٹس لینے کے دائرہ اختیار کو نہیں چھینا جاسکتا، بینچز کی آزادی کے بارے میں بھی سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا، اس حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مزید کہا گیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا، نتیجتاً سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔