سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کیلئے دائر درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا۔ کیس کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
ملک میں عام انتخابات کیلئے دائر درخواستوں پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ درخواستگزار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کب دائر کی اور اب تک لگی کیوں نہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ اگست کی ہی درخواست تھی مگر کیس فکس نہیں ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں کورٹ اسٹاف نے نوٹ دیا ہے کہ آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی، یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیئے تھا۔ یاد رہے کہ ملک میں 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ملک میں عام انتحابات کے معاملے پر مذکورہ درخواست پر یہ باقاعدہ پہلی سماعت تھی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں شروع کردیں، بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 14 دسمبر تک مکمل ہوگا، درخواست گزار مردم شماری،منظوری اور حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل انتخابات کی تاخیر کا بہانہ ہے۔
درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن 90 دنوں میں کرانا آئینی تقاضا ہے، درخواست گزاروں کیمطابق حلقہ بندیوں،مردم شماری کےبعد90دنوں میں الیکشن ممکن نہیں، درخواست گزاروں سے پوچھا گیا کہ الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا ذمہ دار کون ہے؟ درخواست گزاروں نے عدالتی سوال کا مختلف انداز میں جواب دیا۔
کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم سوالات اٹھا دیئے۔ کہا کیا ہم صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ نہ دینے پر نوٹس کر دیں؟ اظہر صدیق کے وکیل انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ نے درخواست خود نہیں لکھی۔ وکلا شام کو ٹی وی پروگرامز میں کیس لڑتے ہیں، یہاں تیاری سے نہیں آتے۔ عابد زبیری ایڈووکیٹ نے تو خود ہی مان لیا کہ اگر آج سپریم کورٹ 90 دنوں میں انتخابات کا حکم دے تو تین نومبر کو پولنگ ممکن نہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف نے درخواست کس کے توسط سے دائر کی؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ عمر ایوب کے ذریعے درخواست دائر کی گئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عمر ایوب عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی طرح عمر ایوب بھی روپوش ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عمر ایوب کے دادا کون تھے، وکیل نے جواب دیا کہ عمر ایوب، جنرل ایوب خان کے پوتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا ایوب خان آمر تھے یا جمہوری رہنما تھے؟ ایوب خان نے اپنے دور میں انتخابات کرائے تھے یا نہیں؟ ریمارکس دیے کہ ایوب خان نے 1956 کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا عمر ایوب اپنے دادا ایوب خان کے اقدام کی مذمت کریں گے، کیا اب عمر ایوب جمہوری ہو چکے ہیں، چلیں ابھی ان باتوں کو رہنے دیں، بعد میں کبھی پوچھیں گے۔