پاکستان میں جبری مشقت ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے سد باب کیلئے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے، ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد مزدور استحصالی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بیرون ملک مزدوری کیلئے جانیوالے افراد جبری مشقت کا خصوصی شکار ہیں کیونکہ ملک سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے استحصال اور جبری مشقت کا شکار ہونے کے خطرات دیگر مزدوروں کے مقابلے میں تین گنا بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پچھلے ایک عشرے میں 65 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک خصوصاً خلیجی ممالک ہجرت کر چکے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ملک مزدوری کیلئے جانا اس مسئلے کو بڑی شدت سے واضح کرتا ہے۔
اسی مسئلے کے حل کے لیے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او ) نے امریکی محکمہ محنت (USDOL) کے تعاون سے فیصل آباد میں دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا جو اس کے BRIDGE پروجیکٹ کا حصہ تھی، اس ورکشاپ کا مقصد پاکستان میں جبری مشقت کے خاتمے اور منصفانہ بھرتی کے طریقوں کو فروغ دینا ہے۔ اس ورکشاپ میں پرنٹ، الیکٹرانک، ریڈیو، اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 30 صحافیوں نے شرکت کی۔
آئی ایل او کے نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فیصل اقبال نے جبری مشقت اور مزدوروں کی ہجرت کے مسائل پر آگاہی پیدا کرنے میں میڈیا کے اہم کردار پر زور دیا اور کہا کہ میڈیا جبری مشقت کے خلاف عوامی شعورپیدا کرنے اوراس میں ملوث مافیاز کی جوابدہی کیلئے نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر فیصل اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں جبری مشقت کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن اندازہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد افراد اس مسئلے کا شکار ہیں، اس لئے میڈیا کو ان مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے اجرت کی روک تھام، قرض کی غلامی اور استحصالی کام سمیت آئی ایل او کے جبری مشقت کے گیارہ انڈیکیٹرز پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ آئی ایل او کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق جبری مشقت سے سالانہ 236، ارب ڈالر کے منافع حاصل کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی سپلائی چین میں جبری مشقت کے خاتمے اور 2027 تک یورپی یونین کی نئی پابندیوں کے متعلق بھی شرکاء کو آگاہ کیا اور بتایا کہ یہ پابندیاں جبری مشقت سے بننے والی مصنوعات پر عائد کی جائیں گی۔
ایوارڈ یافتہ صحافی اور میڈیا ٹرینر عون عباس ساہی نے ورکشاپ میں میڈیا کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں جبری مشقت اور بیرون ملک مزدوری کیلئے جانیوالوں کے مسائل جیسے موضوعات کو ترجیح نہیں دی جاتی حالانکہ یہ لاکھوں افراد اور ملکی معیشت کے مسائل ہیں۔
انہوں نے فیصل آباد جیسے علاقوں میں ان مسائل کی زیادہ سے زیادہ کوریج کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ ان علاقوں میں ٹیکسٹائل، زراعت اور اینٹوں کے بھٹوں میں جبری مشقت عام ہے۔
عون ساہی نے مزدوروں کے حقوق اور صنفی حساسیت پر مبنی رپورٹنگ کی اہمیت پر زور دیا اور ورکشاپ کے شرکاء کو جبری مشقت کے متاثرین کے انٹرویوز کرنے، ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اوراس سے ایسی خبریں بنانے کی تربیت دی جس سے جبری مشقت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔
ورکشاپ کا اختتام عملی مشقوں، گروپ ڈسکشن، اور انٹرایکٹو سیشنز کے ساتھ ہوا جس میں صحافیوں نے جبری مشقت کے خاتمے اور منصفانہ بھرتی کے فروغ کے لئے بھر پور کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔