فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے حوالے سے اہم نکات جنھیں جاننا انتہائی ضروری ہے۔
فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کا فیصلہ کسی بھی وقت متوقع ہے۔اگرچہ فوج شروع سے ہی سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں کے حوالے سے دیئے گئے احکامات کی تعمیل کر رہی ہے اور کرتی رہے گی چاہے جو بھی فیصلہ آے یقیناً اس بار بھی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کو قبول کیا جائے گا جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے۔
اس بار بھی قانون پر عمل داری کرتے ہوئے فوج نے 9 مئی کے مجرموں کا فیصلہ تب سنایا جب آئینی بینچ نے اسے 9 مئی کے مجرموں کی سزائیں سنانے کی جازت دی۔
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ یہ دائرہ اختیار کون طے کرتا ہے کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں؟ یہاں فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق نکات جاننا ضروری ہیں۔
بات اگر 9 مئی 2023ء سے جڑے شرپسندی کے واقعات اور اس میں ملوث مجرمان کے جرائم اور ان کی شنوائی ملٹری کورٹس یا انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں کی جانی چاہئے سے متعلق ہو تو قانونی ماہرین کے مطابق فوج نے قانون کے مطابق اور مندرجہ ذیل طریقہ کار کے تحت ہزاروں کی تعداد میں 9 مئی کے پکڑے جانے والے شر پسندوں میں سے صرف 105 مجرموں پر ہی اپنا دائرہ اختیار استعمال کیا وہ بھی صرف ان کیسز میں جن کے جرائم پر ملٹری کورٹس کی متعلقہ دفعات لاگو ہوتی تھی، جو کہ پاک آرمی ایکٹ کے تحت قابل سزا ہیں۔
اگر ان دفعات کا ذکر کیا جائے تو ان دفعات کے دائرہ اختیار میں آنے والے جرائم یعنی فوجی تنصیبات پر حملہ، وہاں بازور طاقت دراندازی اور پاک فوج کے دفاعی امور میں مداخلت شامل ہیں۔
ان مجرمان کیخلاف مکمل شواہد اور ثبوت دستیاب ہیں اور یہ بنیاد ان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے زمرے میں آتی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز 9 مئی 2023ء کے بعد ہونا شروع ہوئے ہیں؟، یا 9 مئی کے بعد یہ قانون سامنے آیا ہے۔؟ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کے 1967ء میں یہ قانون آیا اور 1975ء میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ ترمیم بھی ٹھیک ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے اور 2015ء میں بھی اور اب بھی سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں پر سے سٹے آرڈر ختم کیا گیا۔ جس سے بات ثابت ہے کے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل بالکل بھی نئی بات نہیں اور ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔
ملٹری کورٹس کے حوالے سے یہ فیصلہ ملک میں قانونی نظام کے اطلاق کے لئے اہم ہے، لیکن اس کے اطلاق سے پہلے تمام اداروں کو ایک واضح اور ہم آہنگ لائحہ عمل اپنانا ہوگا تاکہ عدلیہ پر عوامی اعتماد کو یقینی بنایا جا سکے
آخر میں یہ بات جاننا اہم ہے کہ اب بھی آئینی بینچ ملٹری کورٹس سے متعلق جو فیصلہ کرے گا فوج قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر عمل کرے گی لیکن یہاں ایک اہم معاملہ جو توجہ طلب ہے کے اگر فیصلہ ملٹری ٹرائلز کے خلاف آتا ہے تو مستقبل میں ملٹری لاء کی خلاف ورزی کے کیسز میں ملوث ملزموں کو انصاف کی فراہمی کو سُرعت کے ساتھ یقینی بنانے کی ساری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ پر ہو گی- پاکستان میں عدلیہ کس تیزی کے ساتھ فیصلے سناتی اور اسکی کارکردگی کیسی ہے سب جانتے ہیں۔