اسلام آباد میں ایک انتہائی چونکا دینے والے اور دل دہلا دینے والے واقعے میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر، کاؤنٹر ٹیررازم ونگ (سی ٹی ڈبلیو)، پر اپنی ماتحت افسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، کو ہراساں کرنے، زبردستی نکاح کرنے، اور بدترین جسمانی و ذہنی تشدد کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق متاثرہ خاتون افسر نے فیڈرل محتسب برائے خواتین ہراسانی تحفظ کے دفتر میں درج شکایت میں الزام لگایا ہے کہ ہمایون مسعود نے اپنے اعلیٰ عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں ہراساں کیا، دھمکایا، اور اپنی مرضی کے خلاف تعلقات پر مجبور کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شادی کے بعد ملزم نے ان پر متعدد غیر انسانی شرائط عائد کیں، جن میں اولاد پیدا کرنے کی اجازت نہ دینا اور تعلقات کو پوشیدہ رکھنے کی ہدایت شامل ہیں۔
مدعیہ کے مطابق، ملزم نے انہیں دھوکہ دیتے ہوئے شادی پر مجبور کیا اور اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ہر طرح کے حقوق سے محروم رکھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نکاح کے فوراً بعد انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور جب وہ حاملہ ہوئیں، تو ان کے بچے کو زبردستی ختم کروا دیا گیا۔ 20 دسمبر 2024 کو مدعیہ کے مطابق، اسلام آباد پولیس نے ملزم کی ہدایت پر انہیں ایف آئی اے کی سرکاری رہائش گاہ سے اغوا کیا۔ انہیں نائٹ گاؤن میں بغیر چادر اور جوتوں کے خواتین پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں انہوں نے رات بھر جسمانی اور ذہنی اذیت برداشت کی۔ پولیس نے ان کے موبائل فون تک ضبط کر لیا اور ان کے والد کو بلایا گیا، جنہیں ان کی رہائی کے لیے ایک خالی کاغذ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ثانیہ نے مزید بتایا کہ ہمایوں نے ان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ درج کروایا اور ان کا تبادلہ کروا دیا۔ ان کے دفتر اور رہائش گاہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی، جبکہ ان کی ذاتی اشیاء کو بغیر اجازت ہٹایا گیا۔ ثانیہ نے اپنی درخواست میں اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ نہ صرف ملزم کے خلاف کارروائی کریں بلکہ ان کی عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے انصاف فراہم کریں۔ فیڈرل محتسب برائے خواتین ہراسانی تحفظ کے دفتر میں اس کیس کی ابتدائی سماعت یکم جنوری 2025ء کو ہوئی، جہاں مدعیہ کی درخواست کو قابل سماعت قرار دے کر مکمل تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ یہ واقعہ ایف آئی اے جیسے قومی ادارے کے کردار پر سنگین سوالات اٹھا رہا ہے اور اس کیس کے فیصلے پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔