سال 2024 انٹرنیٹ کی اسپیڈ کے حوالے سے پاکستان کا بدترین سال رہا۔ کبھی فائر وال سے انٹرنیٹ ٹریفک پر دباو بڑھا تو کبھی وی پی این کی رجسٹریشن اور سب میرین کیبلز میں فالٹ نے آئی ٹی انڈسٹری،فری لانسرز اور آن لائن سرگرمیوں کو ماند کیے رکھا۔
ملک میں انٹرنیٹ سرگرمیوں کے حوالے سے 2024 کا سال بنا رہا وبال، سب میرین کیبلز میں خرابی کے 4 بڑے واقعات سے ہی صارفین کو 1750کیگا بایٹس فی سیکنڈ انٹرنیٹ کم ملا۔
ریاست مخالف پراپیگنڈا اور غیر اخلاقی مواد روکنے کیلئے نصب فائر وال اور ویب منیجمنٹ سسٹم نے بھی انٹر نیٹ کو سست رفتار بنائے رکھا تو سال کے آخر میں وی پی این رجسٹریشن کی مہم صارفین کیلئے درد سر بنی رہی۔ آن لائن بزنس سمیت ڈیجیٹل سرگرمیوں کو شدید دھچکہ لگا۔
انٹرنیٹ سروس پروائئڈرز کے مطابق انٹر نیٹ کی ایک گھنٹہ بندش 9 لاکھ ڈالر سے زیادہ اور سروس میں ایک دن کے تعطل پر سوا کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔
صدر وائرلیس انٹرنیٹ پروائیڈرز ایسوسی ایشن شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ جتنا انٹرنیٹ بندرہتا ہے اتنی کاسٹ پلے سے ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ آپکی اس کے اوپر ریونیو جنریٹ نہیں ہورہی ہوتی کیونکہ پیمنٹ تو انہوں نے شروع میں کر دی ہوتی ہے پھر آپ وہ آہستہ آہستہ صارفین سے وصول کرتے ہیں۔
سابق چیئرمین آئی ٹی ٹاسک فورس و چیئرمین پاشا سید احمد کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کم کر رہے ہیں۔2021میں ایکسپورٹ گروتھ 47فیصد تھی اس سال 24فیصد رہی، ہماری گروتھ میں تین فیکٹرز ہیں ایز آف ڈوئنگ بزنس، کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس، کنٹری امیج ان تینوں ایریازمیں سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے ہمارے انٹرنیٹ کے مسائل اور وی پی اینز کے مسائل نے پہنچایا ہے۔
صورتحال کی بہتری کیلئے ایک طرف وزارت آئی ٹی اضافی اسپیکٹرم کی فراہمی،فائیو جی ٹیکنالوجی اور اسپیس انٹرنیٹ پر کام کرنے کی دعویدار ہے تو دوسری جانب ماہرین دستیاب اسپیکٹرم کی رفتار پر ہی بڑے سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ماہر ٹیلی کام امور افتخار پرویز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت اسپیکٹرم جتنا آپریٹرز کے پاس موجود ہے وہ دنیا میں تو کم ہے ہی ہمارے ریجن میں سب سے زیادہ کم ہے۔ 15 فیصد ٹاور فائبر سے کنیکٹڈ ہیں باقی 85 فیصد مائیکرو ویو سے جڑے ہیں جب زیادہ ٹریفک بڑھتی ہے تو انکی چوکنگ ہوجاتی ہے فائبر اور اسکے استعمال پر بھی ٹیکس زیادہ ہے۔
گزشتہ سال میں انٹرنیٹ مسائل آئی ٹی انڈسٹری کے مسلسل نقصان اور عام شہریوں کیلئے مشکلات کا باعث بنتے رہے لیکن وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے نے یا تو چپ سادھے رکھی یا پھر سب ٹھیک ہے کے بیانات جاری ہوتے رہے۔