متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان ) کے سینئر رہنما سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر ن لیگ کیساتھ ایم او یو سائن کیا تھا اور وہ پوری طرح ہمارے ساتھ ہے جبکہ ترمیم کی بنیاد پر ہی ہم حکومت میں شامل ہوئے ہیں۔
سماء کے پروگرام ’’ سماء ڈیبیٹ ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما سید مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ 2013 میں جب پاکستان سے باہر گیا تو استعفیٰ دے کر نہیں گیا تھا کیونکہ اگر اعلان کر کے جاتا تو ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا، میں ایم کیو ایم چھوڑنا چاہتا تھا، جب پاکستان چھوڑا تو لندن اور یہاں کی رابطہ کمیٹی ڈھونڈتی رہی ، میرا رابطہ پارٹی سے صرف ای میل پر رہا اور پارٹی کو کہا ذاتی مسائل کی وجہ سے پارٹی میں واپس نہیں آسکتا، پارٹی ممبران کہتے تھے بھائی ( الطاف حسین ) سے ایک دفعہ بات کر لو، پیغام ملتا تھا بھائی کہہ رہے ہیں ایک دفعہ بات کروا دو میری۔
ایم کیو ایم رہنما نے بتایا کہ نومبر2013 میں سینیٹ سے استعفیٰ کا پیغام ملا، مستعفی ہونے کے 7 ماہ بعد میرا استعفیٰ سینیٹ میں جمع کروایا گیا، 13 اگست 2013 کے بعد الطاف حسین سے بات نہیں ہوئی، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی انگلیاں الطاف حسین کی طرف اٹھتی ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ میرے زمانے میں کراچی دنیا کے 12 تیز ترقی کرنیوالے شہروں میں شامل ہوا، آج کا کراچی دنیا کے چار بدترین شہروں میں شامل ہے ، اگر آبادی بڑھی ہے تو وسائل بھی بڑھے ہیں، اس سال این ایف سی ایوارڈ کے 1800 ارب روپےسندھ کو ملے ہیں، ہمارے دور میں سو ڈیڑ ھ سو ارب ملتا تھا، 1800 ارب روپے کا مالک صوبے کا وزیراعلیٰ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت آئین کے ارٹیکل 140 A پر عمل نہیں کر رہی ، ہم نے 27 ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ بنایا اور ترمیم کو آئین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم میں ہی 27 ویں ترمیم شامل کرنا چاہ رہے تھے، 27 ویں ترمیم سے وزیر اعلیٰ کو مقامی حکومتوں کی تشریح نہیں کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ بڑی جماعتوں کے لوگ نئی لیڈرشپ نہیں چاہتے ، ہر بڑی پارٹی نے لوکل گورنمنٹ کی مخالفت کی ہے۔
ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ پاک سر زمین پارٹی بنانا ہمارا اپنا فیصلہ تھا، جب ریاست کو را سے فنڈز لینے والوں سے مسئلہ نہیں تو ہمیں کیوں ہوگا ؟، ہمارا 800 سے 900 نوجوان لاپتہ تھا، جس کو اٹھاتے تھے اُسکو را کا ایجنٹ بولتے تھے ، نوجوانوں کو را کا ایجنٹ لیڈر شپ کی وجہ سے بولتے تھے،مہاجروں کی پہچان را کے ایجنٹ کی نہیں، پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی ، جب دشمنی کی ہے تو کھل کر کی ہے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ جو میرے ڈی این اے کو جانتے ہیں انہیں علم ہے کوئی مجھ سے کام نہیں کروا سکتا، میرے پاس ثبوت ہے کہ میں 2018 کا الیکشن جیتا ہوں، 9 بج کر 16 منٹ پر ملک کا آر ٹی ایس سسٹم بٹھا دیا گیا تھا، کوہلو، وزیرستان ، افغانستان بارڈر سے رزلٹ آگئے مگر کراچی کا رزلٹ نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے دونوں کیسز میں زمین کی الاٹمنٹ کا ذکر نہیں ہے ، جس زمین کا نمبر لکھا ہے وہ 35 سال سے پرائیویٹ پراپرٹی ہے، پانچ سال سے پیشیاں بھگت رہا ہوں مگر کیس میں کوئی گواہ نہیں آیا، 2019 میں ملک چلانے والے چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہو جاؤں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیہ فیکٹری کے مالکان سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ دار ہیں، بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی نہیں گئی، لگی تھی، سانحہ بلدیہ فیکٹری کا ایک ملزم کینیڈا اور ایک لندن میں رہ رہا ہے، لکڑی کا غیر قانونی فلور بنا تھا جس میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگی، آگ لگی تو فیکٹری مالکان نے کہا دروازہ بند کرو کوئی کیش لیکر نہ بھاگ جائے، سانحہ بلدیہ کے دونوں ملزمان کو بزنس کمیونٹی نے ضمانت دلوا کر فرار کیا اور ملزمان کو راجہ پرویز اشرف کے ذریعے رہائی دلوائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 2021 کے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل پر چھٹے دن معاہدہ ہوا تھا، ایم کیو ایم اکیلے حکومت چھوڑنے والا کام نہیں کرے گی، ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت میں اسپیس دی جائے، ہمارے پاس ایک منسٹری ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں، جو منسٹری ہمیں دی ہے وہ صرف اسلام آباد میں سکولوں کی مالک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس ڈگر پر چلی تو اس کا مستقبل تاریک ہے، اس فیز سے گزر چکے ہیں، ہم اپنے لیڈر سے بات نہیں کر سکتے تھے، ہم اپنے لیڈر سے اس لیے با ت نہیں کر سکتے تھے کہ جانوں کا خطرہ تھا، ہم نے بغاوت کی ،اگر پی ٹی آئی بھی یہی کرتی رہی تو تھک جائے گی، ری ہیب سینٹر داخل کروانے کے باوجود ہم اپنا لیڈر نہیں بچا سکے ، پی ٹی آئی کو کہتا ہوں اندھا دھند لیڈر کی بات نہ مانو۔
انہوں نے کہا کہ الطاف حسین اور ان کی بیٹی کی کوئی واپسی نہیں ہوگی، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ الطاف حسین کی بیٹی آئے اور سیاست کرے، سندھ حکومت کے پانی میں کٹوتی نہ کرنے کے موقف کی تائید کرتا ہوں ، نہروں کی وجہ سے سندھ کا پانی کم ہوگا، اس خدشے کو دور کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد طاقت اور وسائل وزرائے اعلیٰ ہاؤس میں قید ہو گئے، 18 ویں ترمیم کا اطلاق پوری طرح نہیں ہوا، جب تک طاقت نچلی سطح تک نہیں جائے گی گورننس بہتر نہیں ہوگی ، ملک بہت بری کنڈیشن میں کھڑا ہے، پولرائزیشن کی وجہ سے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، اب اختلافات سیاسی دشمنیوں میں بدل گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اسٹیل مل کی نجکاری کرنی چاہیے، ہم کبھی کسی نا جائز چیز کی حمایت نہیں کریں گے، ملک میں انتظامی بنیادوں پر 22 صوبے بننے چاہئیں، ڈی سینٹرلائزیشن سے اخراجات بڑھتے نہیں کم ہوتے ہیں ، کیا 48 ہزار اسکولوں کی خبر ایک وزیر تعلیم رکھ سکتا ہے؟، اسکول کی دیکھ بھال والا اُسی محلے میں ہو گا تو احتساب آسان ہو گا۔