بھارتی حکومت کشمیریوں کی جائز آواز کو کچلنے کے لیے عدلیہ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی محدود سیاسی خودمختاری کے خاتمے کے بعد، کئی آزادی پسند رہنماؤں اور مقامی سیاستدانوں کو گرفتار کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق متعدد سیاسی رہنما، بشمول حریت رہنما مسرت عالم بٹ، یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان اور آسیہ اندرابی کو کالے قوانین جیسے پی ایس اے(PSA) اور یو اے پی اے (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا۔ سینئر کشمیری رہنما اشرف صحرائی، جنہوں نے دہائیوں تک بھارتی قبضے کو چیلنج کیا، 2021 میں بھارتی حراست میں وفات پا گئے۔
بی جے پی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے اختلاف رائے کو محدود کرنے کے لیے جماعت اسلامی، مسلم لیگ، تحریک حریت، جے کے لبریشن فرنٹ، دختران ملت، اور مسلم کانفرنس سمیت متعدد سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارت سیاسی نظریات اور آزادی کے عزم کی بنا پر کشمیریوں کی غیر قانونی قید کو جان بوجھ کر طول دے رہا ہے۔
قیدیوں کو بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے، جس سے ان کے خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں بھارتی حکومت کی ایماء پر عمر قید کی سزا دی گئی، یہ کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کھلی کوشش ہے۔ ہزاروں قیدی، بشمول آزادی پسند رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، وکلا اور تاجروں، کو 5 اگست 2019 سے پہلے اور بعد میں گرفتار کیا گیا اور وہ بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔
بھارتی حکومت نام نہاد انسداد دہشت گردی قوانین کا غلط استعمال اور عدلیہ کو کشمیر کے پرامن حل کی وکالت کرنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کشمیری قیدیوں کے خلاف "عدالتی دہشت گردی" کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے اور بھارت پر مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ بھارت کو کشمیریوں کو ان کے سیاسی نظریات اور امنگوں کی وجہ سے قید کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔