بھارتی کسان حکومت سے شدید مایوس ہیں، غریب کسان ذخیرہ اندوزی، غیر مؤثر خریداری اور ناکافی کم از کم سپورٹ قیمت (ایم ایس پی) جیسے سنگین مسائل کا سامنا کررہے ہیں، جس کے ساتھ انہیں کھاد تک رسائی کی کمی اور کم فروخت قیمت، بنیادی طور پر حکومت کی سپلائی اور طلب کے فرق کو ختم کرنے میں ناکامی اور ان کے مطالبات پر عدم توجہی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں کسانوں کے احتجاج ایک مستقل رجحان بن چکے ہیں، جن میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی شامل ہیں، بھارتی قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء سے 2022ء کے درمیان 42 ہزار کسانوں نے خودکشی کی۔
رپورٹ میں مطابق پنجاب، ہریانہ اور اُتر پردیش جیسی ریاستوں کے کسانوں کو اکثر "خالصتانی" کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے، مودی حکومت پر ان کے جائز احتجاجات کخلاف سخت اقدامات کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2020ء میں بھارت نے تین متنازعہ زرعی قوانین متعارف کرائے، جن کا مقصد اس شعبے کو غیر منظم کرنا تھا تاکہ کسان سرکاری منڈیوں کے علاوہ پیداوار فروخت کرسکیں اور نجی معاہدے کرسکیں، پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے ان قوانین کو اپنے روزگار کیلئے خطرہ سمجھا، کم از کم سپورٹ قیمت کے نظام کے خاتمے اور بڑی کارپوریشنوں کے ممکنہ استحصال کے خدشات ظاہر کئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق نومبر 2020ء میں ہزاروں کسانوں نے دہلی کی طرف مارچ کیا، شہر میں داخلے سے روک دیئے جانے پر کسانوں نے سنگھو، ٹکری اور غازی پور کے بارڈرز پر بڑے احتجاجی کیمپ قائم کیے، یہ احتجاج عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا اور بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا تاکہ وہ کسانوں کے مطالبات پر غور کرے۔
رپورٹ کے مطابق 26 جنوری 2021ء کو دہلی میں ایک بڑی ٹریکٹر ریلی کا مقصد پرامن احتجاج تھا لیکن یہ جزوی طور پر پُرتشدد ہوگیا، اس دوران کسانوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس نے قومی و بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی، حکومت نے قوانین کو 18 ماہ کیلئے معطل کرنے اور خدشات کے حل کیلئے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی لیکن کسان ثابت قدم رہے، جس سے طویل تعطل پیدا ہوا۔
رپورٹ کے مطابق کسانوں کے احتجاجوں کو عالمی توجہ حاصل ہوئی، جس نے بھارتی حکومت پر دوبارہ غور کرنے کیلئے دباؤ ڈالا، 19 نومبر 2021ء کو وزیراعظم مودی نے تین زرعی قوانین کے خاتمے کا اعلان کیا، 29 نومبر کو فارم لاز ریپیل بل منظور کیا گیا، جو کسانوں کیلئے ایک بڑی جیت تھی۔
اس خاتمے کے باوجود، کسان قانونی گارنٹی کیلئے ایم ایس پی اور اضافی تحفظات کا مطالبہ کرتے رہے، جو بھارت کے زرعی شعبے کے مستقل مسائل کو اجاگر کرتا ہے، 2024ء میں کسانوں نے احتجاج دوبارہ شروع کیے، فصلوں کی قیمتوں کی ضمانت اور دیگر معاون اقدامات کیلئے آواز بلند کی، جو بھارت کی سماجی و سیاسی بحث میں زراعت کی مرکزیت کو اجاگر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب میں فصلوں کی قیمتوں اور دیگر شکایات پر مرکوز نئے احتجاجات نے ریل سروسز میں خلل ڈالا، حال ہی میں، مذاکرات کی ناکامی کے بعد، کسانوں نے "ریل روکو" (ٹرینیں روکو) حکمت عملی اپنائی ہے اور 30 دسمبر تک مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں پنجاب بند کرنے کی وارننگ دی ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کے تحت بھارت کی "ہندو راشٹر" میں تبدیلی نے پسماندہ طبقات، بشمول کسانوں کو نظرانداز کردیا ہے، جو ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، یہ بھارتی کسانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کیلئے ایک اہم موقع ہے کہ وہ موجودہ بیانیے کو چیلنج کریں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے نظامی تبدیلی کا مطالبہ کریں۔