ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی 70فیصد رہائشی، کاروباری اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کے انتظامات موجود نہیں ہیں۔ عمارتوں کی تعمیرات کے وقت بلڈنگ سیفٹی کوڈز کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ آگ لگنے کی صورت میں انسانوں جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ دوسری قومی فائر سیفٹی کانفرنس اور رسک بیسڈ ایوارڈ کی تقریب سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں آگ کے لگنے کے لگ بھگ 6 ہزار واقعات پیش آچکے ہیں۔
تقریب سے فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر کنور وسیم، فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن برطانیہ کے ہاورڈ پاسے، آئی ایف پی ملائشیا کے ہاؤ جیانگ، ایف پی اے پی کے ڈائریکٹر ٹریننگ طارق معین، پاکستان میں ریسکیو 1122 کے بانی ڈاکٹر رضوان نصیر، کے ایم سی کے سابق چیف فائر آفیسر مبین احمد، عبدالرحمٰن باری، حسن حبیب، سفیان سلیم اور فواد باری نے بھی خطاب کیا۔
ایف پی اے پی کے صدر کنور وسیم کا کہنا تھا کہ کراچی میں سال 2023 میں 28 سو اور اس سال نومبر کے مہینے تک تین ہزار سے زیادہ آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں اور ان واقعات میں فائر سیفٹی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کئی جانوں کا ضیاع بے پناہ مالی نقصان ہوا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے 70 فیصد رہائشی، کاروباری اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کے انتظامات موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں بننے والے عمارتوں کی تعمیرات کے وقت بلڈنگ سیفٹی کوڈز کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ آگ لگنے کی صورت میں انسانوں جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے ۔
کنور وسیم نے کہا کہ پہلے اسکولوں اور کالجوں میں فائر سیفٹی اور فرسٹ ایڈ کی مشترکہ تربیت دیتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ ہی روک دیا گیا ہے ، ہم اسکولوں سے بچوں کو فائر سیفٹی کی تربیت دینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹریز ایک بڑا بڑا شعبہ ہے ، 8 ہزار سے زائد صنعتیں ہیں اور یہ ایک ہیومینیٹیرین تحریک ہے جس کے تحت ہمیں انڈسٹریز میں کام کرنے والے ملازمین کو تربیت دینا ہوگی۔
ایف پی اے پی کے ڈائریکٹر ٹریننگ طارق معین نے کہا کہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع 70 فیصد اور شارع فیصل پر واقع 60 فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ موجود نہیں ہے۔ ایمرجنسی ایگزٹ کے بغیر رہائشی، کاروباری اور صنعتی کثیر المنزلہ عمارتوں کے نقشے کیسے اور کون منظور کرلیتا ہے۔ یہی عمارتیں آگ لگنے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ جانی نقصان کی بڑی وجہ بنتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ شعور اور آگہی دینا ہوگی کہ آگ لگنے کی صورت کرنا کیا ہے اور کیسے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ہے ۔
پاکستان میں ریسکیو 1122 کے بانی ڈاکٹر رضوان نصیر کا اپنے وڈیو پیغام کا کہنا تھا کہ شہریوں کو علم ہی نہیں اگر آگ لگ جائے تو فوری طور پر کیا کرنا ہے، ہم قانون اور عمارتوں کے قانون کی بات کرتے ہیں لیکن شہریوں کو بنیادی باتیں ہی معلوم نہیں ہیں، آگ لگ جائے تو امریکن اور یورپین سروں پر گیلے تولیے رکھ کر نکلتے ہیں اور ہم ایشین کھانستے ہوئے نکلتے ہیں اس لیے یہ ایجوکیشن ہمیں بچپن سے دینی ہوگی۔
کے ایم سی کے سابق چیف فائر آفیسر مبین احمد نے کہا کہ شاپنگ پلازہ اور بلند و بالا عمارتوں کو کنکریٹ کی دیواروں کو بند کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں باہر کے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اندر کوئی آگ لگنے کا حادثہ پیش آیا ہے یا آگ لگنے کی صورت میں ایمرجنسی ایگزٹ کے طور پر باہر نکلا جا سکتا ہے
کانفرنس میں شریک ماہرین نے کہا کہ ہائی ویز کی طرف چلے جائیں جتنی بھی ہائی رائز عمارتیں اور سوسائٹیز بن رہی ہیں، ان عمارتوں میں فائر ایمرجنسیز کے لیے کوئی انتظامات نہیں ہیں، ماہرین کا کہنا تھا کہ بلڈنگز کنٹرول رولز موجود ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا، ہر ماہ آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں اگرآلات موجود بھی ہیں تو لوگوں چلانا نہیں آتے لہٰذا جو کمپنیاں آلات فراہم کر رہی ہیں انہیں ٹریننگ بھی دینی چاہیے۔