سقوط ڈھاکہ کو 53 برس بیت گئے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ 16 دسمبر 1971ء کو پیش آیا تھا، یہ وہ زخم ہے جو کبھی بھر نہیں سکتا۔ ہر پاکستانی کے دل میں یہ غم اب بھی تازہ ہے اور مکار دشمن آج بھی وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا ایک کبھی نہ بھولنے والا سانحہ ہے جب بھارت کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں 16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان الگ ہونے سے ملک دولخت ہو گیا۔ سقوط ڈھاکا پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ کہہ کر پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا تھا کہ میں نے آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا لیکن وقت نےبھارت کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔
چھ اگست 2024 کو بنگلادیشی عوام نے بھارت نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا اور شیخ حسینہ کو ملک سے فرار ہونا پڑا ۔ اندراگاندھی اس روز زندہ ہوتیں تو اپنی آنکھوں سے دیکھتیں کہ ڈوبا ہوا دو قومی نظریہ دوبارہ خلیج بنگال کی سطح پر آ چکا ہے ۔ دو قومی نظریہ کا سچ اپنی جگہ مگر قوموں اور ملکوں کیلئے اپنی غلطیوں کا ادراک بھی ضروری ہے ۔
سابق سیکرٹری خارجہ جوہر سلیم کا کہنا ہے کہ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور فتح شکست کبھی مستقل نہیں ہوتے، غلطیوں سے سیکھ کر ہی مستقبل کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔
سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر کو ہوا تو پاکستان کی تاریخ کا بہیمانہ ترین دہشتگردی کا واقعہ بھی 43 سال بعد اسی روز ہوا۔ دشمنوں کی جانب سے آرمی پبلک اسکول پشاور میں بچوں کے قتل عام کا یہی مقصد تھا کہ اس دن کو پاکستانیوں کےلئے دہرے دکھ اور تکلیف کی علامت بنا دیا جائے۔