سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پہلے دن ہی ڈیڑھ گھنٹے میں 18 مقدمات سن لئے، 16 کیسز نمٹا دئیے گئے، ایک میں دوبارہ نوٹس جاری جبکہ ایک کیس میں رپورٹ طلب کرلی گئی اور 3 غیر سنجیدہ درخواستگزاروں پر 20،20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوگیا، پہلے دن ڈیڑھ گھنٹے میں 18 مقدمات پر سماعت ہوئی جن میں سے 16 کیسز نمٹا دئیے گئے، ایک کیس میں درخواستگزار کو دوبارہ نوٹس جاری کیا گیا اور ایک کیس میں رپورٹ طلب کرلی گئی جبکہ 3 غیرسنجیدہ درخواستگزاروں پر 20،20 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
سابق چیف جسٹس فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی کے خلاف درخواست خارج کردی گئی۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، درخواستگزار وکیل حنیف راہی نے موقف اختیار کیا کوئی بھی شخص پہلے جج بنے بغیر براہ راست چیف جسٹس نہیں بن سکتا جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے نظرثانی میں دوبارہ اصل کیس نہیں کھول سکتے اور جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ مقدمہ قانونی نہیں سیاسی ہے۔
بعدازاں، آئینی بینچ نے نظرثانی درخواست خارج کردی۔
عارف علوی کیس
عارف علوی کی بطور صدر مملکت تقرری کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران عدالتی عملے نے بتایا کہ درخواست گزار کو بھیجے گئے نوٹس کی تعمیل نہیں ہوسکی جس پر عدالت نے درخواستگزار کو دوبارہ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
عام انتخابات
عام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے کی درخواست بھی غیرمؤثر ہونے پر خارج کردی گئی۔
آئینی بینچ نے ججمنٹ اینڈ آرڈر کیس میں پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر وضاحت کرتے ہوئے کیس کو غیر مؤثر قرار دے کر نمٹا دیا جبکہ مولوی اقبال حیدر کی سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست بھی نمٹا دی گئی۔
درخواستوں گزاروں کو جرمانے
ارکان اسمبلی اور سرکاری ملازمین کی غیر ملکی شہریت کی حامل خواتین سے شادی پر پابندی کی درخواست 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مندوخیل نے واضح کیا کہ شادیوں پر پابندی لگانا عدالت کا اختیار نہیں بلکہ یہ معاملہ قانون سازی کا ہے۔
غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے درخواست بھی خارج کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو منتخب نمائندوں سے رجوع کی ہدایت کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) دور میں ہونے والی قانون سازی کالعدم قرار دینے کی درخواست غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کی اور یوں بے بنیاد مقدمات پر عدالت نے مجموعی طور پر 60 ہزار روپے کے جرمانے عائد کرتے ہوئے درخواستوں کو نمٹا دیا۔