سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےمختلف مقدمات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیارکو تسلیم کرتے ہوئےدرخواستیں خارج کردیں،غیرسنجیدہ درخواست دائرکرنےوالےدرخواست گزاروں پرساٹھ ہزار روپے کے جرمانے بھی عائد کیے گئے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی آئینی بینچ نے ججمنٹ اینڈ آرڈر کیس میں پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر وضاحت کرتے ہوئے کیس کو غیرمؤثر قرار دے کر نمٹا دیا۔اس کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نےعدالت سے نظرثانی کی درخواست کی۔
جس پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ معاملہ اب غیرمؤثر ہو چکا ہے،مولوی اقبال حیدر کی سپریم کورٹ میں داخلے پرپابندی کے خلاف درخواست بھی آئینی بینچ نے نمٹا دی،جسٹس مندوخیل نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کہیں وہ پابندی میں توسیع کے ارادے سےتونہیں آئے، جس پر درخواست گزار نےوضاحت دی کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ارکان اسمبلی اور سرکاری ملازمین کی غیر ملکی شہریت کی حامل خواتین سے شادی پر پابندی کی درخواست بھی بیس ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مندوخیل نےواضح کیاکہ شادیوں پر پابندی لگانا عدالت کا اختیار نہیں بلکہ یہ معاملہ قانون سازی کا ہے، اسی طرح، غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے درخواست کو بھی عدالت نے خارج کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے۔عدالت نےدرخواست گزاروں کو اپنےمنتخب نمائندوں سےرجوع کرنے کی ہدایت دی،
آئینی بینچ نےعام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے کی درخواست خارج کر دی،آئینی بینچ نے درخواست غیر مؤثر ہونے پر خارج کی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریماکس دئیے کہ وکیل نہیں آئے ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا انتخابات ہوچکے ہیں یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی ہے
موسم کی خرابی کے باعث انتخابات فروری کے بجائے مارچ میں کرانے کی استدعا کی گئی تھی
سپریم کورٹ نےپی ڈی ایم دورمیں ہونے والی قانون سازی کالعدم قراردینےکی درخواست کو غیرسنجیدہ قرار دیتے ہوئے بیس ہزار روپےجرمانے کےساتھ خارج کر دیا،یوں بے بنیاد مقدمات پر عدالت نے مجموعی طور پر ساٹھ ہزار روپے کے جرمانے عائد کرتے ہوئےدرخواستوں کو نمٹا دیا۔