پاکستانی صارفین کے واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کیے جانے کی شکایات میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔
ایف آئی اے کو یکم جولائی سے اب تک ایک ہزار 426 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم یہ تو وہ شکایات ہیں جو رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ اکاؤنٹ ہیک ہونے کے واقعات اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
وفاقی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 1,426 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 549 اکاؤنٹس کو کامیابی سے بحال کردیا گیا ہے۔
ایف آئی اے اس وقت 877 فعال شکایات پر کارروائی کر رہی ہے جن میں سے 817 کی تصدیق ابھی جاری ہے جبکہ 20 غیر حل شدہ کیسز کو اب باقاعدہ انکوائریوں کی طرف بڑھا دیا گیا ہے۔
ان ہیک کیے گئے اکاؤنٹس کی تفصیلات سینیٹ میں جمع کرادی گئی ہیں۔ ایف آئی اے نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 40 شکایات ہیں جن کا کوئی جواب یا پیش رفت رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کو محفوظ رکھنے کے لیے مضبوط حفاظتی طریقہ کار اختیار کریں۔
ہیکنگ سے کس طرح بچا جائے؟
آئی ٹی ماہرین کے کہنا ہے کہ ان دنوں واٹس ایپ، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ہیک ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ان کیسز پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شہری کئی بار کچھ اہم معاملات کو نظر انداز کرتے ہیں جیسے اپنی آئی ڈی کو کسی بھی عوامی مقام پر استعمال ہونے والے کمپیوٹر پر سائن اِن کرنے کے بعد صرف آئی ڈی کو لاگ آؤٹ کرتے ہیں، کیوںکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ آئی ڈی اب کوئی نہیں کھول سکتا۔
لیکن کمپیوٹر کی ہسٹری میں ان کا آئی ڈی اور پاس ورڈ محفوظ ہوجاتا ہے، اور کوئی بھی اسے بعد میں کھول سکتا ہے جس کے باعث یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی فرد جب اپنی آئی ڈی کسی بھی سسٹم میں لاگ اِن کرے تو براوزر کی ہسٹری کو بھی ضرور ریموو کرے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہریوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی نامعلوم نمبر سے آنے والے لنک کو نہ کھولیں۔ اس سے بھی ان کی آئی ڈی ہیک ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اپنے موبائل نمبر پر آنے والے خفیہ کوڈ کسی سے بھی شیئر نہ کریں۔ سوشل ایپلیکشنز کی جانب سے اب اپنے پلیٹ فارمز کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جس کے باعث ہیکنگ مشکل ہوگئی ہے، لیکن کوئی شہری اگر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنا سکیورٹی کوڈ کسی سے شیئر کرتا ہے تو اُس کی آئی ڈی ہیک ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔