26 ویں آئینی ترمیم کا ثمر، اعلیٰ عدلیہ کوجسٹس یحییٰ آفریدی کی صورت میں ایک انتہائی قابل، غیر سیاسی اور غیرمتنازعہ چیف جسٹس مل گیا۔
پارلیمان کےدونوں ایوانوں سےکترث رائے سےمنظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق قائم کی گئ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پر جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا گیا۔
12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم 5 میں ہوا۔ سنی اتحاد کونسل کے 3 ارکان علی ظفر، بیرسٹر گوہر اور حامد رضا نے حسبِ توقع اجلاس کا بائیکاٹ کیا- کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق کرلیا
نامزد کیے گئےجسٹس یحیی آفریدی سابقہ فاٹا سےتعلق رکھتےہیں اور اپنے کیریئر میں کسی بھی قسم کی سیاسی جانبداری سے دور رہ کر قانون کی خدمت سرانجام دیتے آئے ہیں،چیف جسٹس کے عہدے کے لیےموزوں ترین شخصیت ہیں۔ انکے بارے میں مشہور ہے کے وہ ایک سنجیدہ سوچ رکھنے والےبغیر کسی تعصب کے صرف آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلے کرنے والے جج ہیں جنکا دامن ہمیشہ کسی بھی طرح کے تنازعات سے پاک رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحیٰ آفریدی نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی اور گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم اۓ معاشایات کی ڈگری حاصل کی۔جسٹس یحیٰ آفریدی نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے1990 میں ہائی کورٹ سے وکالت شروع کی 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا،جسٹس یحیٰ آفریدی نے خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل خدمات بھی سرانجام دیںں۔جسٹس یحیٰ آفریدی 2010 میں پشاور ہائی کورٹ کےایڈیشنل جج مقرر ہوے جبکہ ان کو 15مارچ 2012 کو مستقل جج مقرر کردیاگیا۔30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحیٰ آفریدی نےپشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف اٹھایا جبکہ 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہےکہ جسٹس یحیی آفریدی ماضی میں متعدد اہم فیصلوں کا حصہ رہے ہیں لیکن جسٹس یحیی آفریدی نے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا اور وہ صرف آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیتے رہے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی اب تک اپنے فیصلوں کے باعث تمام حلقوں میں غیر جانب دار اور غیر متنازعہ جج مانے جاتے ہیں
قانونی ماہرین کی رائے میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سے عدالتی نظام میں باقاعدہ اصلاحات شروع کر دی گئی ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ سپریم کورٹ جہاں سابقہ ادوار میں صرف سینیارٹی کی بنیاد پر جج کو چیف جسٹس کا عہدہ فراہم کیے جانے کی روایت تھی، جسٹس یحیی آفریدی کی تعیناتی سے یہ روایت ختم ہوگئی اور اب صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ ہوا جو کہ ایک خوش آئیند عمل ہے
قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کی چیف جسٹس کے طور پر تقرری، قاضی فائز عیسیٰ کی طرح جو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، چھوٹے صوبوں سے میرٹ پر مبنی انتخاب کی جانب ایک اہم تبدیلی کی مثال ہے۔
دونوں شخصیات، جو تاریخی طور پر پسماندہ علاقوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں، یہ ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان کے ہر کونے سے صلاحیت رکھنے والے افراد ملک کی اعلیٰ عدالتی صفوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دس سال بعد خیبر پختونخوا سے چیف جسٹس کا تقرر ہوا ہے اور پہلی بار کسی قبائلی علاقے سے یہ اعزاز حاصل کیا گیا ہے۔ جسٹس آفریدی کی تعیناتی ان لوگوں کے لیے ایک طاقتور پیغام سمجھا جا رہا ہے جو خیبر پختونخوا میں حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ تقرری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے عوام کے حقوق اور ان کی نمائندگی کو اب مرکزی مقام دیا جا رہا ہے، جو دیرپا انصاف کی علامت ثابت ہوگا ہے۔
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اپنے امتحان میں کامیاب رہی ہے- جس طرح 26ویں آئینی ترمیم کا یہ پہلا ثمر نئے چیف جسٹس کی صورت میں سامنے آیا ہے اسی طرح اس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بھی اپنا کردار ادا کرے گا اور وہ صرف آئینی فیصلے سنے گا جبکہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس دیوانی اور فوجداری مقدمات پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے بیک لاگ کو ختم کرینگے جس سے بلاشبہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا