26 آئینی ترمیم پورے پاکستان کے لیے نوید سحر ،پارلیمان کی عدلیہ پر بالا دستی بحال، *
حکومت اور اتحادیوں نے بھرپورمشاورت کے ساتھ چھبیسویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس کرواکرملک کی آئینی تاریخمیں ایک انتہائی فیصلہ کن اور اہم سنگِ میل حاصل کر لیا ہے،آئین کے آرٹیکل 19 کے بعد عدالتی اختیارات کا جو توازن عدلیہ کی طرف مکمل طور پر جھک چکا تھا اُس میں معنی خیز ترمیم کر کے پارلیمان نےاپنی بالا دستی کو بحال کردیا ہےجو پورے پاکستان کے لئے ایک انتہائی خوش آئند بات ہے جس سے یقیناً پاکستان کی عدلیہ کی کارکردگی اور پارلیمان کی بالا دستی کے حوالے سے دور رس نتائج نکلیں گے
26 آئینی ترمیم عدلیہ پر پارلیمانی بالا دستی قائم کرنےکا ایک تاریخی آئینی فیصلہ ہے - چند اہم ترین فیصلے جو اس آئینی مسودہ میں شامل ہیں اور جن سے پاکستان کے عدالتی نظام میں نمایاں بہتری آئے گی، انکا احاطہ کرنا ضروری ہے
۱- چیف جسٹس کی تقرری کے لئے بجائے سینئر ترین جج کی تعیناتی کے پرانے طریقہ کار کے، اب ایک بارہ رکنی سپیشل پارلیمانی کمیٹی تین سینئر موسٹ ججز کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب چیف جسٹس کے طور پر کرے گی جسکی ختمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دیں گے -
پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں بشمول حزبِ اختلاف کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کلیدی عمل سے عدلیہ کی خود سے ہی سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے اور باقی اہم اداروں کی طرح سپریم کورٹ میں بھی میرٹ پر چیف جسٹس کی تعیناتی کی جائے گی
۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا- اس عمل میں بھی جمہوری اقدار کے مطابق پارلیمانی بالا دستی کے اصول کو نمایاں رکھا گیا ہے
۳- اِسی طرح مسودے میں آئینی بینچ کی تشکیل شامل ہے - جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے - آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا - آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی - اس اہم ترمیم سے عدلیہ کی کارگردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا کیونکہ آئینی بینچ صرف آئینی معاملات کو سنے گا جبکہ باقی عوام سے متعلق کیسز سپریم کورٹ معمول کے مطابق سنتی رہے گی اس سے عدلیہ کی حکومتی معملات میں مداحلت کا راستہ بھی بند ہو جائے گا
۴- اِسی طرح وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی اس سے عدلیہ کا حکومت کے انتظامی امور میں عمل دخل ختم ہو جائے گا اور حکومت پوری آزادی کے ساتھ اپنی گورننس اور کارکردگی پر توجہ دے سکے گی
۵- ججوں کی کارکردگی کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے جس میں کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے گا اور اگر کوئی جج اپنی کارکردگی بہتر نہیں کرتا تو اسکا کیس جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکے گا،۶- تمام سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججوں کی پاکستانی شہریت لازمی ہے اس کے علاوہ انکا وکالت کا وسیع تجربہ، اور لوئر کورٹ میں جج ہونے کا تجربہ بھی لازمی شرط شامل ہے
اِسی طرح باقی ترامیم کا مقصد بھی عدلیہ کی کارکردگی کو عوام کے لئے بہتر بنانا ہے تاکہ عدالتی امور بھی جمہوری اقدار کے مطابق پارلیمان کی بالا دستی کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چلائے جا سکیں - اس بات میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں چھبیسویں آئینی ترمیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان میں پارلیمان کی بالا دستی قائم ہو گئی ہے جسکا فائدہ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام پاکستان کو ہوگا