خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ منظر عام پر آ گیاہے جس میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ڈویژن کے بجائے اب آئینی بینچ بنانے کی تجویز دی گئی ہے ، نئےآرٹیکل 191اے میں سپریم کورٹ میں ’’آئینی ڈویژن ‘‘ کےالفاظ کو’’آئینی بینچ ‘‘ سےتبدیل کردیاگیا ، جبکہ ججز کی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا ، چاروں صوبوں کی ممکنہ حد تک مساوی نمائندگی ہوگی ۔
تفصیلات کے مطابق مسودے میں دہری شہریت والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی ترمیم خارج کر دی گئی ہے ، منحرف رکن کے ووٹ سے متعلق تجویز واپس لے لی گئی، سپریم کورٹ کے ججز کی عمر کی حد 65سال برقرار کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔جبکہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کی عمر 65 سال ہونے پر 3 سال سے پہلے ہی سبکدوشی ہوگی ،آئینی بینچ کے سوا سپریم کورٹ کاکوئی جج اوریجنل جوریسڈکشن،سوموٹومقدمات،آئینی اپیلیں یاصدارتی ریفرنس کی سماعت کامجازنہیں ہوگا۔ سوموٹو،اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اورصدارتی ریفرنسزکی سماعت اورفیصلہ“آئینی بینچ”کا 5رکنی بینچ کرےگا،آئینی اپیلوں کی سماعت اورفیصلہ بھی 5 رکنی آئینی بینچ کرےگا،سماعت کیلئے تمام آئینی بینچ 3سینئرترین جج تشکیل دیں گے،آئینی بینچ کےدائرہ اختیارمیں آنےوالے سپریم کورٹ میں “زیرالتوا”کیسزاورنظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گی۔
آرٹیکل 63 دہری شہریت والوں کےالیکشن لڑنے اور 63 اے میں منحرف ارکان کے ووٹ شمار کرنے کی ترامیم نئے مسودے سے خارج کر دی گئی ، آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیرمملکت کے الفاظ حذف کئےجائیں،، صرف کابینہ یاوزیراعظم کی صدرکوبھجوائی گئی سمری کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجا سکےگا، ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینےکااختیارنہیں ہوگا۔
مسودے کے مطابق آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سےزیادہ 3 سال ہوگی، لیکن 65 سال کی عمر کو پہنچنے پر 3 سال سے پہلے ہی ریٹائر کردیا جائے گا،اسی طرح 3 سالہ مدت گزرنے پر چیف جسٹس کی عمر 65 برس سےکم بھی ہوگی توریٹائرڈکردیاجائےگا،آرٹیکل 175 اے،جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کئےجائیں گے،جوڈیشل کمیشن میں 4ارکان کےعلاوہ خاتون یاغیرمسلم یاسینیٹ کا ٹیکنوکریٹ پانچواں رکن ہوگا، رکن کو اسپیکر قومی اسمبلی دو سال کیلئےنامزد کریں گے،ایک تہائی ارکان کی ریکویزیشن پر چیئرپرسن 15روزمیں اجلاس بلانےکا پابندہوگا،نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7روز میں اجلاس بلانےکااختیارہوگا،سود کے خاتمے کیلئے آرٹیکل 38 ایف میں ترمیم،یکم جنوری 2028 کی تاریخ مقرر کر دی گئی، آرٹیکل 185میں ترمیم،10لاکھ یا زائد رقم کے فیصلوں کی اپیل سپریم کورٹ میں براہ راست دائرکرائی جاسکےگی ۔
184(3) کے تحت سو موٹو یا ابتدائی سماعت کےمقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حدتک جاری کرسکےگی،آرٹیکل 186 اے میں ترمیم، سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے زیر سماعت مقدمہ اپیل یا دیگر کارروائی کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کے علاوہ خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی، آرٹیکل 209 میں ترمیم ، چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس ہو تو ان سے نیچے کا سینئرترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا سربراہ بنایا جا سکے گا، ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائیگا۔
آرٹیکل 243 میں ترمیم کوحتمی مسودےسےنکال دیا گیا جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی،سروسزچیفس کی دوبارہ تقرری،توسیع قوانین کوآئینی تحفظ حاصل ہوناتھا، اس کیلئےآئین میں نئےآٹھویں شیڈول کا مجوزہ اضافہ بھی نکال دیا گیا۔ آرٹیکل 203 سی میں ترمیم،فیڈرل شریعت کورٹ جج بھی اب شرعی عدالت کے چیف جسٹس بننےکےمجاز ہوں گے، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ شریعت ایپلنٹ بینچ میں اپیل کےفیصلے تک معطل رہےگا، اپیل پر ایک سال تک فیصلہ نہ ہو تو شرعی عدالت کا فیصلہ موثر قرار پائےگا،چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن مدت مکمل ہونے کے باوجود نئے کمشنر یا ارکان کی تقرری تک کام کرتے رہیں گے۔
کمشنر اور ارکان پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی قراداد کے ذریعے دوسری مدت کیلئے تقرر کرنے کی شق حتمی مسودے میں ختم کر دی گئی۔ اگر کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہدیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو چیف جسٹس آف پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کے لئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں ، حکومتی مسودے کے مطابق آرٹیکل نو،اکیاسی، ایک سو گیارہ اور ایک سو ستاسی میں بھی ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔