مودی سرکار کےتیسری بار اقتدارمیں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا روز کا معمول بن گیا ہے۔
حال ہی میں صحت اورحفاظت کےقواعدیقینی بنانےکی آڑمیں مسلم مخالف پالیسی اترپردیش اور ہماچل پردیش میں متعارف کرائی گئی،اس مسلم مخالف امتیازی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہےکہ وہ اپنےتمام ملازمین کے نام عوامی طور پرظاہر کریں۔
یہ پالیسی پہلےہندتوا کےپرچاری اتر پردیش کےوزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نےمتعارف کرائی تھی جو کہ بعدمیں ہماچل پردیش میں بھی لاگو ہوچکا ہے،مقامی لوگوں اورکارکنوں کا دعویٰ ہےکہ نئے قوانین دراصل مسلمان کارکنوں اور اداروں پر تعصب اور نفرت کی آڑ میں سازش کے تحت حملہ ہیں۔
مسلم کاروباری مالکان کو تشویش ہےکہ یہ پالیسی سخت گیر ہندوگروپوں جیسے بجرنگ دل کی جانب سےٹارگٹڈ حملوں یا اقتصادی بائیکاٹ کا دروازہ کھولے گی،جس سے ان کے کاروبارکو شدید مندی کا خطرہ ہے،ہندوستان میں پچھلےپانچ سالوں میں مسلمان دوکانداروں کے خلاف واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ مہینےبجرنگ دل کےایک ریاستی رہنماکی ایک ویڈیومنظرعام پرآئی ہے،ویڈیومیں بجرنگ دل کا رہنما، حاضرین سے یہ عہد کرنےکامطالبہ کررہا ہےکہ وہ کسی مسلمان دکاندارسے سامان نہیں خریدیں گے۔
نیا لاگوکردہ قانون بی جےپی کی جانب سےمسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہے،جو معاشرے میں خوف اور تقسیم پھیلانےکی کوشش کر رہی ہے۔
اترپردیش کےکاروباری مالکان نےبتایا کہ نئےقوانین کے نتیجےمیں انہوں نےمسلم عملے کو برطرف کر دیا ہے،کیونکہ انہیں ڈر ہےکہ وہ ہندوتوا کے حامیوں کا آسان نشانہ بن جائیں گے۔
دیگر مسلم زیرِکنٹرول کاروباروں نےانکشاف کیا کہ انہیں اس ظالمانہ پالیسی کے باعث شدید ہراساں کیا جا رہا ہے،اور بعض تو اپنا کاروبار بند کرنے پرمجبور ہو رہے ہیں۔
اتر پردیش کے شہرمظفرنگر میں ایک ریسٹورنٹ کےمسلمان مالک،رفیق نے کہامجھے اپنے مسلمان عملے کو برطرف کرنا پڑا کیونکہ اس حکم کےبعدمیں ان کی حفاظت کے لیے بےحد فکر مند تھا۔
"یہ امتیازی پالیسی ایک خطرناک سازش ہے جو مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے اور نفرت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ادریس احمد جو سات سال تک ایک ہندو ریستوران میں باورچی کے طور پر کام کرتے تھے،کونوکری سے برطرف کردیا گیا ہے،میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے یہ نوکری کرتا تھا اورمیں نے محض اپنے مذہب کی وجہ سے یہ نوکری کھو دی۔آخر کب تک مودی سرکار مسلمانوں کو امتیازی پالیسیوں کا شکار بناتی رہے گی؟