سندھ ہائیکورٹ نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست مسترد کردی۔
سندھ ہائیکورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف وکلاکی درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست غلام رحمان کورائی اور دیگرکی جانب سے دائرکی گئی تھی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ شفیع صدیقی نے وکیل سے استفسار کیا کہ جب ترمیم ہوئی ہی نہیں عدالت کیسےمداخلت کرسکتی ہے؟ ترمیم سے پہلے کیسے تعین کریں قانون کے مطابق ہورہی ہے یا نہیں؟ اسمبلی میں بیٹھے 24کروڑعوام کے منتخب نمائندے ہیں۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ پرسپریم کورٹ کی ججمنٹ پڑھی؟ اس کے باوجود آپ نے ایسی درخواست دائر کرنے کی جسارت کی۔ کس قانون کے تحت مسودہ بارکونسلز،وکلا تنظیموں کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیں؟3، 4لائنیں لکھ کردرخواست دائر،پھراخبارات میں خبرلگ جاتی ہے، سپریم کورٹ کے15 رکنی بینچ کے فیصلے کیخلاف ہم کیسے جاسکتے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کردی۔
واضح رہے کہ حکومت نے دو روز قبل ہی مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کا مسودہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا ،جس میں کہا گیاہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی تین سینیئر ترین ججز میں سے کرے گی ۔
حکومت کے مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں میں ججز کے تقرر کیلئے سات رکنی آئینی کمیشن تشکیل دیا جائے گا ، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی ، وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر سڑسٹھ سال ہو گی ، چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال ہوگی ۔
مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی شق ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ قومی اسمبلی کی آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئرترین ججز میں سےایک نام تجویز کرے گی ۔ وزیراعظم وہ نام صدر کو بھجوائیں گے جو اس کی منظوری دیں گے ۔ پارلیمانی کمیٹی میں مختلف جماعتوں کی نمائندگی ان کے ارکان اسمبلی کے تناسب سے ہوگی ۔ سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیاہے جبکہ چیف جسٹس کی مدت تین سال کر دی جائے گی۔
آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت اور چار صوبائی آئینی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔وفاقی آئینی عدالت کےپہلےچیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرمملکت کریں گے ۔ جبکہ اس عدالت کے اولین ججز کا تقرر صدرمملکت ، چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے مشورے سے کریں گے ۔ مستقبل میں آئینی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز کا تقرر سات رکنی آئینی کمیشن کرے گا ۔ جس میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین جج شامل ہوں گے ۔ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کا نامزد کردہ ایک ریٹائرڈ جج ، وفاقی وزیر قانون ، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی رکن ہوگا ۔ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2 ، 2 ارکان کمیشن میں لئے جائیں گے ۔ صوبائی آئینی عدالتوں میں تقرر کیلئے متعلقہ صوبائی وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندے کمیشن میں شامل ہوں گے ۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور جج کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا ۔ جبکہ ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی جا رہی ہے ۔ آئینی ترمیم کی رو سے ہائیکورٹس کے ججز کی سالانہ کارکردگی رپورٹ مرتب ہو گی ۔ خراب کارکردگی والے جج کو بہتری کیلئے وقت دیا جائے گا ۔ کارکردگی پہتر نہ ہونے پر ہائیکورٹ جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کا بھجوا دیا جائے گا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو آئندہ چیف جسٹس پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کہا جائے گا ۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں منحرف رکن کا ووٹ شمار کرنے کی شق شامل کی جا رہی ہے۔