وکلاء کی آئینی ترمیم اور آئینی عدالت کی حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور ہائیکورٹ ایڈوکیٹ طاہرچوہدری کا کہنا ہے کہ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں پاکستان میں ان کا قیام ہونا کوئی انہونی یا نئی چیز نہیں ہے ۔
ایسےتمام کیسز جن میں آئن کی تشریح ضروری ہے ان کی سنوائی آئینی عدالتوں میں ہو گی اور یہ عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی ورکنگ کو بھی بہتر کرے گا ۔
سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ ایسوسی ایشن ایڈوکیٹ شفقت تارڑ کا کہنا ہے کہ عوام اور عدالتوں کا زیادہ تر وقت آئینی اور سیاسی مقدمات میں ضائع ہو جاتا ہے اور عام عوام کی سنوائی نہیں ہوتی اس لئے ریفارمز لانا ضروری ہے۔
سابقہ سیکرٹری اسلام آباد بار ایسوسی ایشن ایڈوکیٹ مظہر جاوید کا کہنا ہے کہ انصاف نا ممکن ہو چکا ہے،انسان کو اُس کی زندگی میں انصاف نہیں ملتا اسکی اولاد بھی ان مقدموں کی پیروی کرتی رہتی ہے،ججوں کی روٹیشن نا ہونے کی وجہ سے مافیا کا قبضہ ہو چکا ہے انصاف بکتا ہے ، اس امر سے عوام کی تباہی ،انصاف کی تباہی و وکالت کی تباہی ہو رہی ہے۔
عوام اپنے مقدمے کی سنوائی کے لئے دس سے بیس سال تک سپریم کورٹ کی راہ تکتی رہ جاتی ہے لیکن سپریم کورٹ میں ترجیح سیاسی اور آئینی معاملات کو دی جاتی ہے ۔