بھارتی سپریم کورٹ نے 30 ہندوستانی فوجی اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کو منسوخ کر دیا
سپریم کورٹ کےفیصلے سےناگالینڈ کی عوام میں غصے اور مایوسی کی لہر دوڑ گئی،بھارتی فوجی اہلکاروں پر گاؤں کے 13رہائشیوںکو گھات لگا کر ہلاک کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کا الزام ہے۔
ناگالینڈ میں انسانی جانوں کےضیاع پرانصاف کا مطالبہ کیا جارہا ہےجبکہ مقامی رہنماوں کی مجرمانہ خاموشی انصاف کے عمل پہ سوالیہ نشان ہے
ہلاک ہونے والے افراد میں سے ایک والدہ، جنکا 32 سالہ بیٹا ہلاک ہونے والوں میں شامل تھا،انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛
"ہم غمزدہ اور مایوس ہیں،ہمیں انصاف ملنا چاہیے"'ہم سب انسان ہیں، ہر کسی کی جان قیمتی ہے، بھارتی فوجیوں کو معصوم دیہاتیوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے تھا'
آرمڈفورسزسپیشل پاورز ایکٹ، 1958 کے تحت،فوجی اہلکاروں کےخلاف کارروائی کے لیےمرکز کی منظوری درکار ہے،یہ کالاقانون فوج کو تلاشی، گرفتاری اور "امن عامہ کی بحالی" کے لیے گولی چلانے کے اختیارات تک دیتا ہے۔
یہ قانون 1958 سے آسام اورمنی پور کے ناگا علاقوں میں نافذ ہے،بھارتی فوج اس گھناونے قانون کی آڑ میں معصوم شہریوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہی ہےراجیہ سبھا میں بی جے پی کی رکن فانگن کونیاک کی خاموشی پر مقامی لوگ شدید برہم ہیں،
عوام کے مطابق راجیہ سبھا رکن کی خاموشی اقتدار میں موجود لوگوں کی حقیقی وفاداریوں کو عیاں کرتی ہے
مودی سرکار اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنے ہی عوام پر ظلم ڈھا رہی ہے آخر کب تک بھارت میں مودی سرکار اپنے ظلم و ستم کا بازار گرم رتی رہے گی؟