سپریم کورٹ نے دوماہ 11 دن بعد مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 70 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہےالیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا اضافی سزا ہے۔سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق کی واضح کرتی تو یہ ابہام پیدا نہ ہوتا۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے کردار پر سوالات اٹھا دیئے۔ الیکشن کمیشن کا ابہام دور کرنے والے چودہ ستمبر کے حکم نامے کو بھی اکثریتی فیصلے کا حصہ بنا دیا گیا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف،شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ پی ٹی آئی، اس کے امیدوار اور رائے دہندگان ریٹرننگ آفیسرز اور کمیشن کے غیر قانونی کاموں کا نتیجہ نہیں بھگت سکتے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے تک موجودہ عہدیدارہی مجاز ہوں گے، انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم ہونے پر سابقہ عہدیدار بحال ہو جائیں گے، کسی سیاسی جماعت کےعہدیداران الیکشن ایکٹ کی شق 208 کےتحت منتخب ہوتے ہیں، منتخب عہدیداران کا سرٹیفکیٹ الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت جمع کرایا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کے انتخابات منظور کرنے یا نہ کرنے تک نومنتخب عہدیداران پارٹی معاملات سنبھالتے ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کی الیکشن کمیشن کی جانب سےنامنظوری پر پرانےعہدیداران بحال ہو جاتے ہیں۔