عدلیہ سے متعلق قانون سازی کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آج ہوں گے ۔ حکومت کی جانب سے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں ۔ حکمران اتحاد نے اپنے اراکین کو اسلام آباد میں ہی موجود رہنے کی ہدایت کر رکھی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان سے بھی حمایت کیلئے دوبارہ رابطے کا فیصلہ ہوا ہے ۔ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
اعلیٰ عدلیہ سے متعلق اصلاحاتی قانون سازی کےلیے دونوں ایوانوں کا الگ الگ اجلاس خلاف معمول چھٹی کے روز بلالیا گیا۔ ہفتہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سہ پہر 3 بجے اور سینیٹ اجلاس 4 بجے طلب کرلیا گیا۔ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق تمام سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی بالائی عمر بڑھانے کا فیصلہ کرلیا گیا، آئین کے آرٹیکل 179 اور آرٹیکل 195 میں ترمیم بھی ہوسکتی ہے، اعلٰی عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان کی تعیناتی 3 سال کیلئے ہوگی، سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 60 سےبڑھا کر 68 سال کرنےکی تجویز ہے۔
اعلٰی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کیلئے عمر کی بالائی حد بھی بڑھ جائے گی، ترمیم کی صورت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی عہدے پر مزید 3 سال برقرار رہ سکیں گے، حاضرسروس چیف جسٹس کے استغفیٰ پر سنیارٹی کے تحت اگلا جج بھی 3 سال کیلئے تعینات ہوگا۔ مجوزہ آئینی ترمیم کےتحت سول سرونٹس کی نئی تقرریوں پر6 سال تک پابندی ہوگی۔
حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم منظور کروانے کیلئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اتحادی جاعتوں کے ساتھ ساتھ جے یو آئی کی حمایت بھی حاصل کرنا ہوگی ۔ ذرائع کے مطابق اتحادی سرکار نمبر گیم پوری کر چکی۔ حکمران اتحاد نے اپنے ارکان پارلیمان کو اسلام آباد میں موجود رہنے کی ہدایت کردی جبکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ارکان پارلیمان سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کو ہفتے کی شب عشایئے پر بھی بلا لیا ہے۔
وزیر اعظم نے ارکان پارلیمنٹ کو عشائیہ پر مدعو کرلیا
حکومت کی عدالتی اصلاحات پارلیمان سے منظور کرانے کے سلسلے میں وزیر اعظم نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو عشائیہ پر مدعو کرلیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف آج اتحادی ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ کو عشائیہ دیں گے۔
ذرائع کے مطابق حکومت اپنے ارکان کی مکمل حاضری کو یقینی بنا رہی ہے، حکومتی اتحاد کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو پیر تک اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکومت جمعیت علمائے اسلام ف کی مکمل حمایت حاصل کرنے کیلئے بھی متحرک ہے، حکومت کو سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کیلئے جے یو آئی سمیت مزید 4 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
واضح رہے کہ ممکنہ آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ووٹ درکار ہوتے ہیں ۔
قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان جب کہ اپوزیشن بنچزپر 101 ارکان موجود ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت آئینی ترمیم لانا چاہے تو اسے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19،بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز جب کہ 2 ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔ یوں ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد54 بنتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں ، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔