رپورٹ: عامر باجوئی
بلوچستان میں 30 لاکھ سے زائد بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
سمیرہ گورنمنٹ مڈل اسکول باغبانہ میں نوویں کلاس کی طالبہ ہے وہ 7 کلو میٹر پیدل سفر کرکے ہائی اسکول پہچتی ہے انہوں نے اپنے گھر کے قریبی اسکول سے مڈل پاس کیا لیکن مزید تعلیم کے لیے تین اسکول چھوڑ کر ہائہ اسکول پنچتی ہے۔ سمیرہ کا کہنا ہے کہ "مجبوری کی حالت میں اتنا دور اسکول جاتی ہوں ایک تو قبائلی علاقہ ہے جہاں لڑکیوں کا اکیلی گھر سے نکلنا مناسب سمجھا نہیں جاتا ہے اس سے قبل جس اسکول سے مڈل پاس کی وہاں ایک ہی ٹیچر پڑھاتی تھی۔
سمیرہ کے والد "شہزاد علی کا بتانا ہے کہ "تعلیم حاصل کرنا میری بیٹی کی شوق ہے کسی بیٹے نہیں تعلیم حاصل نہیں کیا تو سوچا بیٹی کو تعلیم دوں۔ ہمارے علاقے میں تعلیم کی کوئی سہولت نہیں ہے یہ سوچ کر ووٹ دیا تھا کہ منتخب نمائندے تعلیم کی بہتری کے لیے کوشش کریں گے۔".
بلوچستان میں شروع دن سے تعلیم کا بحران رہا ہے وقت گزرنے کے ساتھ بہتری کے بجائے تعلیم پسماندگی کا شکار ہوتا جارہا ہے وزارت منصوبہ بندی کی جاری کردہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پلاننگ رپورٹ میں بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے مزید انکشافات ہوئے ہیں اس رپورٹ میں واضح ہے ضلع گوادر صوبے میں تعلیمی حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ یہی ضلع ملکی رینکنگ میں 67 واں نمبر پر ہے یعنی ملک کے پہلے 60 اضلاع میں بلوچستان کا ایک ضلع بھی شامل نہیں ہے۔
انفرا اسٹرکچر،انتظامیہ سمیت تعلیمی سرگرمیوں میں پاکستان کا کمزرو ترین اضلاع بلوچستان کے ہیں اس طرح کتابیں، اساتذہ، بلڈنگ ودیگر سہولیات سے محروم اسکولوں میں بلوچستان کے سب سے زیادہ اسکول ہیں مجموعی طور پر بھی بلوچستان کے اسکول ہر حوالے سے پسماندگی کا شکار ہیں جو اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
بلوچستان میں دور دراز علاقوں تعلیمی پسماندگی کے بہت سے واضح اور اعلٰی مثال قائم ہیں مگر صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ میں بھی صورتحال ابتر ہیں کوئٹہ میں بلوچستان سیکٹریٹ سے تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر نیو کاہان میں ایک ایسا محلہ بھی ہے جہاں اسکول نہ ہونے سے بمشکل 10 فیصد بچے تعلیم حاصل کررہے ہوں اور یہ دس فیصد بچے کئی کلو میٹر دور پیدل کرکے اسکول پہنچتے ہیں یہ علاقہ مری قبائل پر مشتمل ہے جو 1990 کی دہائی میں ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے حکومت نے انہیں زمین تو فراہم کی مگر آج دن تک کسی سرکاری اسکول کی منظوری نہ دے سکی یہاں کے رہائشی نوجوان ضیاء کا کہنا ہے "مجھے تعلیم کا کافی شوق تھا میرے والدین مجھے پڑھ لکھ کر ایک سرکاری افسر دیکھنے کا خواہش رکھتے تھے اور میرے والدین کی یہ خواہش ایک خواب بن کر ادھورا رہ گیا میں کبھی تعلیم حاصل نہ کرسکا۔".
ماہرین تعلیم بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے مختلف وجوہات بتاتے ہیں جن میں ایک خاص وجہ اساتذہ کی شدید کمی بھی ہے بلوچستان ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن کے مطابق صوبے کے اسکولوں 10 لاکھ سے زائد زیر تعلیم طلبہ کے لیے 52 ہزار اساتذہ موجود ہیں جبکہ 18 ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں 2019 سے ایک بھی اساتذہ کی تعیناتی ممکن نہ ہوسکا ہے 9 ہزار مشتہر اسامیاں کے لیے ٹیسٹ کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے تاہم عدالت کے حکم کے باوجود ان کی تعیناتی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور اس وقت 30 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ اسکولوں میں صرف 43 فیصد سہولیات دستیاب ہیں۔
ماہر تعلیم محمد عالم جتک کے مطابق "بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی ایک وجہ افسران کی کوتاہی ہے ضلعی تعلیمی افسران میں ایسے بھی افسران موجود ہیں جو اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف کے فنڈز سے بھی کرپشن کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ یونیسیف جیسے ادارے صوبے کے چند اضلاع کے علاوہ باقی شہروں میں کام کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے حال ہی میں حکومت نے صوبے کے تعلیمی افسران کو ٹرانسفر تو کردیا ہے مگر یہ اس کا مستقبل حل بھی نہیں ہے جہاں صوبے میں کرپٹ تعلیمی افسران موجود ہیں وہی پر تعلیم سے وابستہ بہترین افسران بھی موجود ہیں". طارق بلوچ خضدار کی تحصیل وڈھ میں بطور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
طارق بلوچ کا کہنا ہے کہ '' میرے دائرہ اختیار میں ٹوٹل 148 اسکول ہیں 65 اسکول غیر فعال ہیں جن کی بحالی کے لیے میں انتہک کوشش کی ہے مگر چند اسکولوں کی بحالی کے علاوہ کامیاب نہ ہوسکا ہوں ان اسکولوں کی غیر فعالی کی وجہ اساتذہ کی کمی ہے جہاں اساتذہ نہیں ہیں وہاں اسکول بند پڑے ہیں 148 اسکولوں کے لیے 200 منظور شدہ اسامیاں ہیں ان میں سے 105 اسامیاں خالی ہیں آبادی کے حساب سے ہر 5 کلو میٹر کے بعد ایک پرائمری اسکول کی درکار ہے۔