اسلام آباد کے علاقے سنگجانی کے مقام پر ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے مقامی انتظامیہ نے اجازت دی تھی اور اس حوالے سے مقامی انتظامیہ اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا جس کے مطابق جلسہ اپنے مقررہ وقت پر شروع ہو کر مقررہ وقت پر ہی ختم ہوگا، جلسے میں آنے والوں کیلئے روٹس متعین کئے گئے تھے اور اس میں سب سے اہم بات جلسے کے دوران کسی طرح کا کوئی ریاست مخالف نعرہ نہیں لگایا جائے گا اور نہ ہی ریاست کیخلاف کوئی تقریر کی جائے گی، اس معاہدے پر دونوں جانب سے دستخط کئے گئے تھے۔
اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ نے تو جو معاہدہ کیا اس پر مکمل عملدرآمد دیکھنے میں آیا مگر پی ٹی آئی کی جانب سے حسب روایت جلسے کے طے شدہ قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔پی ٹی آئی اس معاہدے کی تمام شقوں جس پر وہ دستخط کر چکی تھی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ ہی متعین روٹس کی شق پر عملدرآمد کیا، نہ ہی جلسہ مقررہ وقت پر شروع ہوا اور ختم ہوا ورپھر جلسے کے دوران ریاست مخالف نعرے لگائے گئے، مقررین کی جانب سے ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف گھٹیا زبان استعمال کی گئی بالخصوص خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ایما پر شرپسند کارکنوں نے جلسے کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس سے کئی پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے، کیا یہ سب کچھ کرنا قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں ہے؟ یہ پولیس اہلکار تو آپ کو سہولت فراہم کرنے کیلئے آپ کی سکیورٹی کیلئے ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، مگر پی ٹی آئی کے شرپسند عناصر جو اس جلسے کی آڑ میں کوئی بڑا واقعہ کرانے کی کوشش میں مصروف تھے نے ان پولیس اہلکاروں پر حملے کئے، اس طرح ریاست کی مشینری اور ریاستی اہلکاروں پر حملے کیا کسی سیاسی جماعت کو زیب دیتے ہیں؟
انتشار پسند جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے جب جلسے میں ہر طرح کی خلاف ورزی کی گئی تو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ان کیخلاف کارروائی کیلئے باقاعدہ ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا اور اس کے بعد پیر کی شام جلسے کے سٹیج پر موجود پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاری کا عمل بھی شروع ہو گیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق شیر افضل مروت، عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان، شعیب شاہین، زین قریشی و دیگر گرفتار ہو چکے ہیں ان کیخلاف مقدمات کے اندراج کا مرحلہ بھی شروع ہو چکا جس کے بعد انہیں اب عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے بوکھلاہٹ میں یہ گرفتار یاں کرکے قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں، یہ بات کرنے والے سے یہ سوال کیا جائے کہ جب پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے جلسے کے دوران قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو للکارا، ان کیخلاف جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کئے اور ریاست کیخلاف نعرے بازی کی کیا وہ سب کچھ قانون کے دائرے میں آتا ہے۔۔۔؟ قانون کی خلاف ورزی تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے کی گئی جنہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کرکے اس سے مکر گئے۔
صرف پی ٹی آئی نہیں کوئی بھی شخص یا جتھہ جب ریاست مخالف نعرے بازی کرے گا، ریاست کو للکارے گا یا ریاست کیخلاف تقاریر کرے گا تو قانون حرکت میں آئے گا اور اسے گرفتار کیا جائے گا، پی ٹی آئی کے پاس اس جلسے کی صورت میں ایک جگہ موقع تھا کہ وہ خود کو ایک سیاسی جماعت ثابت کرتی مگر اس نے ایک بار پھر 9 مئی والا راستہ اپنانے کی کوشش کی اور ملک میں انارکی پھیلا کر امن و سکون تباہ کرنے کی کوشش کی۔
پی ٹی آئی کی انتشاری سوچ اور منفی سیاست سب پر عیاں ہو جانے کے بعد اب باشعور عوام اس جماعت کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہے، اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں بھی ان کے ہلڑ بازی کے بیانیے کی وجہ سے لوگوں کی تعداد توقعات سے کم رہی تھی اور اب اسلام آباد کے جلسے میں جس طرح کی ریاست مخالف سرگرمیاں سامنے آئی ہیں اس کے بعد ان کے جلسوں میں عوامی طاقت نہ ہونے کے برابر ہی نظر آئے گی۔
عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کوبھی فوری طور پر گرفتار کیا جائے کیونکہ جس طرح اس نے سٹیج پر کھڑے ہوکر ریاست کے خلاف اشتعال پسند تقریر کی اور عوام کو بغاوت پر اکسایا، اس سب کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا اور اسے اپنی مجرمانہ کاروائیوں کا جواب دینا پڑے گا۔