اقتدار چھیننے کےبعد سےہی طالبان اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی۔
2021 سےاقتدارِ پر قابض ہونے کے بعد سے ہی طالبان نے اپنے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو بند کر دیا تھا،سابق افغان حکومت اور پروسیکیوٹرز کو طالبان نے یا تو جیلوں میں بند کر دیا یا ماورائے عدالت قتل کیے۔
افغانستان میں سنگین انسانی بحران اور خواتین کے خلاف متعدد مظالم سے لاکھوں زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
افغان سرزمین پر قبضے کے بعد طالبان نے تمام جیلوں سے سزا یافتہ دہشتگردوں کو رہا کیا جبکہ سابق حکومت کے اہلکاروں کو پابند سلاسل کیا۔
انتقامی کاروائیوں کے طور پر طالبان نے 100 سے زائد سابق افغان اہلکاروں کو نشانہ بنایا جبکہ متعدد آج بھی طالبان کی جیلوں میں بند ہیں، دوسری جانب طالبان کے زیرکنٹرول خواتین بھی طالبان کے عتاب کا شکار ہوئیں ہیں
2021 میں طالبان نے طلاق کے تمام احکامات کو منسوخ کر کے کے خواتین سے طلاق اور خلع کے حقوق بھی چھین لیے
بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق طالبان نے متعدد خواتین کو جیلوں میں دوران حراست تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل بھی کیا،
رپورٹ کےمطابق سابقہ حکومت کے افغان پروسیکیوٹرز اور ججز میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو انصاف کے منتظر ہیں
آخر کب تک طالبان افغان عوام بالخصوص خواتین پر ظلم و بربریت جاری رکھیں گے اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے انکو بنیادی حقوق سے محروم رکھیں گے؟