بنگلہ دیش کی عوام نے غیر جمہوری قوتوں کو ناصرف مسترد کردیا بلکہ جواں مردی کے ساتھ مقابلہ بھی کیا۔
طالبعلموں کی تحریک شیخ حسینہ واجد کے 16 سالہ خوف پر مبنی اقتدار کے خاتمے کا باعث بنی،شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ اُلٹائےجانے کے بعد ہمسایہ ممالک باالخصوص بھارت میں تشویش پائی جارہی ہے۔
مودی سرکار اورحسینہ واجدکی سیاست میں انتہادرجےکی مماثلت پائی جاتی ہے، مودی کی بی جے پی اور حسینہ واجدکی عوامی لیگ سیاسی پارٹیوں کے لبادے میں غنڈاگردی کی منظم تنظیمیں ہیں
بی جے پی بھی عوامی لیگ کی طرح معاشرتی تشدد، ناانصافی اور انتقامی سیاست جیسے اوچھے ہتھکنڈے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے
بی جے پی اورعوامی لیگ نے بھارت اور بنگلہ دیش میں آزادئ اظہارِ رائے اور آزادئ صحافت جیسے بنیادی اُصول سلب کر رکھے ہیں
موجودہ صورتِحال کا جائزہ لیتےہوئےمتعدد بھارتی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں بھی بنگلہ دیش کی طرح عوام کے اندر لاوہ پک رہاہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے،حال ہی میں بھارت سے مختلف سیاسی لیڈروں کے بیانات سامنے آئے ہیں
سابق کانگریسی منسٹرسلمان خورشید کا کہنا ہے کہ بھارت کسی بھی وقت بنگلہ دیش جیسی صورت حال سے دوچار ہوسکتا ہے،
جیسےشہریت ترمیمی قانون اورنیشنل رجسٹر آف سٹیزن کےخلاف شاہین باغ تحریک سامنے آئی،اسی طرح کی مزید حکومت مخالف تحریکیں اُٹھنے کا خدشہ ہے
بنگلہ دیش کےتجربے نے جو بڑاپیغام دیا ہے وہ ہے جمہوریت کی اہمیت، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، شفافیت، لوگوں کو نظام میں شامل کرنا اوراس بات کو یقینی بنانا کہ جمہوریت کے تمام ادارے منصفانہ طریقے سے کام کریں، مگر مودی حکومت میں ایساکچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس سے قبل کانگریس کے لیڈر راہُل گاندھی نےمتنبہ کیا تھا کہ ملک میں دھنگےاور فسادات ہوں گے، وزیرِاعظم پر حملے ہوں گے۔
اس وقت مودی حکومت کو اپنی فسطایئت پر مبنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیئے اور بنگلہ دیش سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔