رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے تحت وصول ہونے والی معلومات کے مطابق لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں کل 10000 سینیٹری ورکز میں سے مردمسیحی سینیٹری ورکرز کی تعداد 9000 جبکہ مسیحی خواتین فیلڈ ورکرز کی تعداد 1000ہے۔
’’ہماری اتنی قسمت کہاں کہ مجھے اس ادارے میں خوش قسمتی سے نوکری مل جاتی ‘‘ یہ دل کو افسردہ کرنے والا فقرہ مجھے تب سننے کو ملا جب میں نے دو خواتین کو کام کرتے ہوئے دیکھا اورمسکرا تے ہوئے کہا کہ آپ کو اس ادارے میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ کو بھی ایک اچھے ادارے میں نوکری مل گئی ہے۔
انا جوزف اور مونیکا فیلڈ سینیٹری ورکرزلاہور کے معروف ایریا گلبرگ میں خواتین کو سڑک کے کنارے صفائی کرتے ہوئے دیکھ حیرانی ہوئی کیونکہ یہ کام زیادہ تر ہمارے معاشرے میں مردوں کو کرتے ہی دیکھا تھا۔انا اور مونیکا کو لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں نوکری کرتے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔دوران گفتگو انا کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے یہ نوکری کرتے چند ماہ جبکہ مونیکا کو قریبا ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو ا ہے ۔ انا کا کہنا تھا کہ ’ میرے والد لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں کام کرتے تھے اور ایک دن کام کرنے کے دوران وہ اس دنیا سے چلے گئے میں اپنے گھر کی بڑی بیٹی تھی تو انکی جگہ مجھے ایک نوکری مل گئی‘۔حیرانی مجھے تب ہوئی جب مونیکا نے بتا یا’کہ میں بھی اپنے شوہر ڈیوڈ کی وفات کے بعد انکی جگہ کام کر رہی ہوں‘۔سوشل ورکر اینڈ پولیٹیکل ایکٹویسٹ سنیل گلزار کا کہنا ہے کہ صفائی کے کارکن پاکستانی معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقات میں سے ایک ہیں۔انہوں نے کہا، "ہم حکومت کو ان کارکنوں کو خصوصی تحفظ کا سامان فراہم کرنے کے لیے قائل کرنے کے لیے برسوں سے کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ہمیں صرف یقین دہانیاں ملتی ہیں،" انہوں نے کہا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے لیے ان مزدوروں کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔
کیا خواتین کو سیفٹی ٹرینگ کی ضرورت ہے؟
لاہور شہر کے کل 9ٹاؤنز ہیں، جن میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق1000 کرسچین سینیٹری خواتین فیلڈ میں کام کررہی ہیں۔گلزار کا کہنا ہے کہ فیلڈ میں صفائی کا کام کرنےو الی مسیحی خواتین کولاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے اپنی سیفٹی کے لئے ٹریننگز جیسے اقدامات بھی کرنے چاہیے۔گلزار کے اس موقف کی تائید کمپنی کے فیلڈ میں کام کرنے والے سینیٹری ورکر جوزف نے بھی کی"جوزف کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ کام کرنےوالی کاخواتین زیادہ تر وہ ہیں جو اپنے باپ ،بھائی یا پھر بیٹے کی جگہ پر مجبوری کی تحت کام کر رہی ہیں۔ان خواتین کو باہر کے حالات کے بارےمیں اتنی آگاہی نہیں کمپنی گلیوں اور محلوں میں انہیں سیفٹی تو نہیں دی سکتی مگر انہیں اتنی ٹریننگ ضرور دینی چاہیے کہ مشکل وقت میں اپنی حفاظت کر سکیں "۔صحافی اور بانی ادارہ سینٹرل لاء اینڈ جسٹس آصف عقیل کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’مسیحی خواتین فیلڈ ورکرز کو جب ہراساں اور سیکورٹی جیسے معاملات کا سامنا ہوتا ہے تو انہیں کہا جاتاہے کہ اپنے ساتھ گھر سے کسی بچے کو لے آئیں‘۔خواتین کے لئے ویسے بھی یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایسے معاشرتی مسائل کو سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو ان کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑتے ہیں‘‘۔
انا کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فیلڈ میں کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ،پہلے اتنی گرمی نہیں ہوتی اب کی بار گرمی میں شدت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔کمپنی کو چاہیے کہ گلیوں اور محلوں کو صاف کرنے والے عملے کو جدید طرز کے آلات دئیے جائیں جن سے صفائی بھی جلدی ہو جائے،جھاڑو سے صفائی کرنےمیں بہت ٹائم لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین کی طبعیت خراب ہو جاتی ہیں۔
خواتین کو کیوں اس ادارے میں کام کرنا مشکل لگتا ہے؟
معاشرے میں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اسی طرح مسیحی خواتین کو اکثر ان کے مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، انہیں رویوں کی وجہ سے انہیں کام کرنے کے حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ آصف عقیل کہتے ہیں انہیں سب سے بڑا مسئلہ صحت کے حوالے سے چھٹیوں کا ہوتا ہے۔شادی شدہ خواتین ،جن کی شادی نہیں ہوئی انہیں،اگر بچے چھوٹے ہیں تو،اور اگر کوئی ڈلیوری کا کیس ہے تو یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ اگر انہیں نوکری مل بھی جائے تو کوڑا اٹھا کر بڑے ٹرکوں میں ڈالنا پڑتا ہے بعض اوقات جسمانی لحاظ خواتین جھوک نہیں سکتی اور کوڑے والے ٹرک پر کھڑے ہو کر جانا پڑتا ہے۔یہ سب سے اہم مسائل ہیں خواتین کےلئے جس بناء پر انہیں نوکریاں ملنے کے امکانات نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس مسئلہ کے بارے میں انا جوزف کا کہنا ہے کہ خواتین فیلڈ ورکرز کو اگر محلوں ،گلیوں اور سٹرکوں کی صفائی کا کام دیا جائے اور ساتھ میں انہیں کچھ جدید آلات بھی تو خواتین زیادہ محنت اور جلدی کام کرنے کی قوت رکھتی ہیں،مگر آج بھی ہم صفائی کے لئے جھاڑو اور کوڑا اٹھانے کےلئے بعض اوقات ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ایک عہدیدار عمر فاروق کا کہنا ہے کہ’ خواتین فیلڈ ورکرز کا کہ زیادہ مسئلہ چھٹیاں کرنے پر ہوتا ہے۔ ڈیلی سروسز دینے والے ادارے کو سب سے زیادہ مسئلہ بھی یہی ہوتا ہے چھٹی بتائے بغیر کی جاتی ہے ۔ایسے معاملوں کے لئےلاہور ویسٹ مینجمنٹ میں ایک کمیٹی ان معاملات کو دیکھتی ہے ۔
مسیحی خواتین فیلڈ سینیٹری ورکرز کو نوکری کیسے ملتی ہے؟
انا اور مونیکا کو ملنے والی نوکری کے طریقہ کار کو بنیاد بنا کر جب لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے پوچھا گیا تو کمپنی کے ایک عہدیدار عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ’ہماری پالیسی کے مطابق اگر کوئی میل یا فی میل سینیٹری ورکر کی دوران ڈیوٹی موت واقعہ ہو جاتی ہے تو انکے خاندان والوں کو انکی جگہ نوکری آفر کی جاتی ہے۔یہ اس خاندان کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ فیملی میں کے کس فرد کا نام دیتے ہیں۔ ہمیں جو کاغذات فیملی کی طرف درخواست کے طور پر وصول ہوتے ہیں اسی فرد کو نوکری دے دی جاتی ہے‘‘۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں ’’فرض کریں کہ اگر ہمیں لاہور شہر کےلئے ایک ہزار سینیٹری ورکرز کی ضرورت ہے تو ہم اشتہار ایک ہزار ورکرز کا ہی دیتےہیں اس میں کوئی سیگریگشن نہیں ہوتی کہ اتنے مرد اور اتنے خواتین چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ سینٹری ورکرز کے طور پر کام کرنا مرد اورعورت دونوں کے لئے ایک مشکل ترین کام ہے۔ معاشرے میں جب وہ ہر طرف سے نوکری نہ ملنے کے جوابات سننے کے بعد ہی سینیٹری ورکر بنتے ہیں ’’ زندگی کا آخری کام ہو تو سینیٹری ورکر بننا پڑتا ہے‘‘۔۔۔
31مئی 2024 کو سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے لاہور فارمن کرسچین کالج میں کہا کہ وہ "غلامی کی زنجیروں اور بیڑیوں" کو ختم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے سینیٹری ورکرز کی نسلوں کو بدنامی اور خطرناک پیشے میں پھنسا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، "میں ہر روز شرم سے اپنا سر جھکا لیتا ہوں اور اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب تک میں صفائی کے کارکنوں کی غلامی کی ان زنجیروں کو ختم نہیں کرتا، میں کس بنیاد پر بنیادی حقوق کا دعویٰ اور بات کرتا ہوں۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ غلامی کی یہ شکل مذہبی یا اعتقادی نظام سے نہیں بلکہ ہندوستانی ذات پات کے نظام سے پیدا ہوتی ہے جو پاکستانی معاشرے کے سماجی تانے بانے میں گہرائی سے سرایت کرچکا ہے۔معاشرے کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی خواتین کے ساتھ امیتازی سلوک کے خلاف حکومتی سطح پر جامع پالیسیوں کی ضرورت ہے جس پر عمل در آمدد کرونا بھی ضروری ہے۔