وفاقی حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق نظرثانی درخواست 13 اکتوبر تک دائر کی جائے گی، سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کیس کیخاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کی آئینی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس پر فیصلہ دے دیا تھا۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کردیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دے دیا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم بھی جاری کردیا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا، چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جب کہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر حتمی فیصلے تک نیب کیس پر کارروائی روکنے یا فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے دے چکے ہیں۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دیا۔ فیصلے میں پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔ اکثریتی فیصلے میں بے نامی کی تعریف تبدیل کرنے، کرپشن کے الزام پر بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کے بارے میں ترامیم بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔