سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے کنویئر شاہد خاقان عباسی نے جمہوریت اور پارلیمانی قدروں میں رہیں گے تو ملک آگے چلے گا، جمہوری قدروں سے باہر جائیں گے تو معاملات خراب ہوں گے، تھوڑی تدبیر، سوچ سمجھ اور جمہوری تقاضوں کی ضرورت ہے، آپ کو ساتھ بیٹھنا ہو گا، خرابیوں کو دہرانے سے ملک ٹھیک نہیں ہو گا، پارلیمان ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے نہیں چل سکتا۔
پریس کانفرنس کے دوران شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے حکومتی اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے بعد پابندی کے فیصلے سے آپ تاثر کیا دینا چاہ رہے ہیں، ایک عدالتی فیصلہ آیا تو آپ نے پارٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا،9مئی کے واقعات کو ایک سال سے زائد ہو گیا، حکومت نے کچھ نہیں کیا، بانی پی ٹی آئی نے غلطیاں کیں، کیا آپ ان غلطیوں کو دہرانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 6کا معاملہ شروع ہوا تو بہت سے لوگوں پر لگے گا، حکومت سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو جوڑنے کے بجائے ملک توڑنے کی طرف جا رہے ہیں،آپ ملک کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں، ابھی پریس کانفرنس ہوئی، کسی نے بتایا حکومت پی ٹی آئی پرپابندی لگانا چاہتی ہے،پریس کانفرنس کر کے آپ کیا تاثر دینا چاہتے ہیں، کیا اداروں میں تصادم چاہتے ہیں؟۔
ان کا کہناتھا کہ مخصوص نشستوں پر حکومت کا حق نہیں تھا، انہیں یہ سیٹیں نہیں لینا چاہیے تھیں،آئینی، قانونی، جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کے مطابق مخصوص نشستیں ملنا غلط تھا،آئین واضح ہے جتنی قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتی ہیں اس سے ایک بھی زیادہ مخصوص نشست نہیں مل سکتی،سپریم کورٹ کا12جولائی کو مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومتی فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے، ملک کے شہریوں کے حقوق کو کیسے تحفظات دیں گے، بعد میں کیسز کا جائزہ بھی لیا جاتا تھا کہ جس کا ڈیٹا چیک کیا گیااس کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہوئی،تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعدہائی کورٹ کا جج 60دن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت دیتا تھا،افسر اپنے شواہد وزارت داخلہ کو دیتے تھے، اس کے بعد ہائیکورٹ کا جج جائزہ لینے کے بعد اجازت دے سکتا تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے فون ٹیپ کرنے کا اختیار خفیہ ادارے کو دینے پر کہا کہ قانون میں 3تحقیقاتی اداروں کو شامل کیا گیا، گریڈ20کاافسر اپنے ادارے کی نمائندگی کرتا تھا،پیپلزپارٹی نے2013میں ایک قانون بنایا،فون ٹیپ کرنے سےمتعلق 39سیکشن رکھے گئے،نوٹیفکیشن میں نہیں لکھا گیاکہ کیا جو ڈیٹا آپ نے اکٹھا کیا وہ قانون شہادت کے تحت استعمال ہوگا کہ نہیں،مجھے جب بھی گرفتار کیا گیا تو کہا گیا نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں کرسکتا،24کروڑ لوگوں کی زندگی ہم نے گریڈ18کےافسر کے حوالے کر دی،بینک کاری،کاروبار، انٹرٹینمنٹ،دیگر چیزیں فون میں شامل ہوچکی ہیں،آج حکومت کو احساس نہیں، فون ہماری زندگی کا حصہ بن چکا،جب1996کاایکٹ بنا اس وقت معاملات کچھ اور تھے۔ ایک شخص کو حق دے دیا گیا کہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ آگیا، تمام ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی،اس نوٹیفکیشن کے بعد پاکستان میں دنیا کی کوئی آئی ٹی کمپنی سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔
سابق وزیراعظم کا کہناتھا کہ اتنا حساس معاملہ پارلیمان میں کیوں نہیں لایاگیا؟آزادی اظہاررائے کا بھی معاملہ ہے، ایسی کیا عجلت تھی کہ ایک دن میں نوٹیفکیشن جاری ہو گیا،پابندیاں حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے ہوسکتی ہیں، خرابی کیلئے نہیں،آئین چادر اور چاردیواری کےتحفظ کا حق دیتا ہے،فون ٹیپ کرنے کا موجودہ نوٹیفکیشن آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے،فون ٹیپ کرنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے۔