سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے دے دی ہے جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لکھا گیا کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا ۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی رائے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ فئیر ٹرائل کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا ۔
عدالت عظمیٰ کے مطابق اگر ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تووہ ضیاالحق کیخلاف سنگین غداری کامقدمہ چلا سکتے تھے۔
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹوکی سزاکی بنیاد بننے والے گواہ کی ساکھ پر بھی سوال اٹھا دیئے اور کہا مسعود محمود اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار اور غلط گواہ تھا، مسعود محمود ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لاکی قیدی تھیں۔
ذوالفقار بھٹو کے خلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتیں آئین کے تابع نہیں تھیں اور آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتی۔
سپریم کورٹ واضح کرنا چاہتی ہے نہ ہم اپیل سن رہے ہیں نہ ہی نظرثانی، آئین یا قانون ایسا میکنزم فراہم نہیں کرتا جس کے تحت سزا کو کالعدم قراردیا جاسکے، سپریم کورٹ سے نظرثانی خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا کا فیصلہ حتمی ہوچکا تھا، صدارتی ریفرنس میں کسی حتمی ہو جانے والے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتے۔
سپریم کورٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو نوٹس دیے بغیر کیس منتقل کیا گیا، ملکی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک قتل کا ٹرائل لاہورہائیکورٹ میں براہ راست چلایا گیا، اس سے پہلے نہ ہی اس کے بعد ایسی کوئی مثال ملتی ہے، پورے ایشیاء میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں براہ راست قتل کا ٹرائل ہائیکورٹ نے چلایا ہو۔
کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کیلئے شواہد ناکافی تھے، بھٹو کیخلاف دفعہ 302 لگانے کے براہ راست شواہد نہیں تھے، 11 سال تک ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہوسکا، وہ تمام ججز جنہوں نے ریفرنس پر ابتدائی سماعتیں کیں وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔