عوام پاکستان پارٹی کے کنوینئر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مریم نواز کو پارٹی عہدہ ملنے کا میرے تحفظات سے تعلق نہیں، مسئلہ تب شروع ہوا جب ن لیگ نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ چھوڑ دیا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا، اگر ہمارا ملک کامیاب نہیں ہوسکا تو ہم سب کی ناکامی ہے، تمام بڑی جماعتیں اقتدارمیں رہ چکی ہیں ، اب بھی ہیں لیکن اقتدار میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو عوام کی فکر نہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سب سے پہلے سیاسی استحکام چاہیے، سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آئے گا، کامیابی اگر اقتدار کا نام ہے تو یقیناً سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئیں، اگرپاکستان کامیاب نہیں ہوا تو یہ کوئی کامیابی نہیں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کامیابی تب ہوگی جب جماعتیں آئین کے مطابق اقتدارمیں آئیں گی، ہمارے ساتھ جو لوگ شامل ہوئے کچھ سیاسی جماعتوں میں رہے ہیں، عوام پر اعتماد کریں ، ان کی رائے کا احترام کریں، کچھ لوگوں نے نوکری بھی تو کرنی ہے ، تنقید ان کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف میرے بارے میں جو کہیں گے مجھے قبول ہے، ہمیشہ کہتا آیا ہوں میرے لیڈر نواز شریف رہے ہیں، آپکی رائے کچھ بھی ہو ، جماعت کا فیصلہ سب پر لاگو ہوتا ہے، مریم نواز کو پارٹی عہدہ ملنے کا میرے تحفظات سے تعلق نہیں، مسئلہ تب شروع ہوا جب ن لیگ نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ چھوڑ دیا۔
انہوں نےکہا کہ زندگی میں کبھی جماعت کا عہدہ نہیں لیا، نوازشریف کو بتا دیا تھا کہ الیکشن نہیں لڑوں گا، جتنی عزت ووٹ کو عزت دینے کے فیصلے سےملی پہلے نہیں ملی، ہماری جماعت کی کامیابی یہ ہے موروثی سیاست نہیں کر رہے، پارٹی آئین میں لکھ دیا کوئی بھی پارٹی عہدے پر 6 سال سے زیادہ نہیں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں ہر کام فائر ان دی بیلی کے تحت کیا، جو جماعتیں یہ کہیں 300 یونٹ مفت دیں گے ، یہ انکی ناکامی ہے، ملکی مسائل کا حل ایک سطح تک دیں گے جو ممکن ہوسکتا ہے، 2018 میں میرا الیکشن چوری ہوا، میں ہار گیا تو کیا قیامت آ گئی، جماعت نے مجھ پر اعتماد کیا لاہور میں الیکشن لڑایا، وہ الیکشن میں جیتا۔
انہوں نے کہا کہ دعا کریں پاکستان میں ایک پارٹی حکومت میں آئے، دوتہائی حکومت کبھی پاکستان میں کامیاب نہیں رہی، ماضی میں دوتہائی حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکی، دوتہائی اکثریت کے بعد نوازشریف کی سوچ تبدیل ہو گئی تھی، دو تہائی اکثریت کے بعد آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی گئی، اس وقت کوشش کی گئی کہ ایوان میں بیٹھے لوگ آئین کی شکل بدل سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہے ، اس کا ایک طریقہ ہے، کوئی کسی کا ذاتی ملازم نہیں، آئین کے نیچے سب کام کرتے ہیں۔