سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں،موجودہ سچوئشن بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود آئین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ 13 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی، بینچ میںجسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے چوتھے روز اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے،وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو ملیں گی،سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا،اٹارنی جنرل نے 2018 میں مخصوص نشستوں کا فارمولا بھی بتا دیا،272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزادامیدوار منتخب ہوئے،9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا ہے، مخصوص نشستیں انتخابات میں حصہ لےکر سیٹیں جیتنے والوں کو ہی دی گئیں۔
منصور عثمان اعوان کا مزیدکہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی،2002 کے انتخابات میں بلوچستان میں 20فیصدآزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کےتعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔
فاضل جج جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ کو بنیادی سوال کو دیکھنا ہو گا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے الیکشن سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی،بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری نہیں اسے درست کریں؟ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کر دیا گیا،آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے، جسٹس اطہر من اللہ کے سوالوں کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا،اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے، منصور عثمان نے جواب میں کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی،آئین واضح ہے مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں،اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں۔
فاضل جج جسٹس منیب اختر نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس میں کہا کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد قرارنہیں دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں،ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں،آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں،موجودہ سچوئشن بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے،بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آزادامیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے، جسٹس منیب اختر نے ان کی حمایت میں کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا الیکشن کمیشن کی غلطی کے نتیجہ میں سامنے آنا بڑا سوال ہے، جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے ہی نہیں اس پر کیوں ٹائم لگا رہے ہیں،اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے،جسٹس منیب اختر نے جواب میں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیرمتعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ منظور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کر چکا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔
اٹارنی جنرل کے جواب میں جسٹس منصور علی شاہ پھر سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کرتا ہے؟پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھادیا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھا دیا، جس میں زرتاج گل کو پارلیمانی لیڈر بھی بنا چکا تھا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ بھی بتائیں الیکشن کمیشن کسی کو آزاد ڈیکلیئر کرنے کا کیا اختیار رکھتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس قاجی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس بات کا فرق کیا پڑے گا کہ پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں، چیف جسٹس کی بات پر جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ایک جماعت کی پارلیمانی پارٹی حیثیت تسلیم کیے جانے سے کیسے فرق نہیں پڑے گا؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ زرتاج گل کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کر چکے ہیں، الیکشن کمیشن نے 25 اپریل کو آزاد امیدواروں کی شمولیت اور پارٹی پوزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا، الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں بھی ارکان کا سنی اتحاد میں شامل ہونا تسلیم کیا ہے۔
فیصل صدیقی نے دلائل پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویزات سے سوچ کا ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے، الیکشن کمیشن ارکان کو سنی اتحاد کا تسلیم کر رہا ہے، حلف کے بعد پارلیمان کے اندر کے معاملے اسپیکر قومی اسمبلی دیکھتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں کہ الیکشن کمیشن ایک جانب سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی نہیں مان رہا مگر پارلیمانی پارٹی قرار دے رہا ہے؟ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے۔
فیصل صدیقی کا مزید کہنا تھاکہ اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی جماعت مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، یہ ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر سوال اٹھایا کہ پارلیمانی پارٹی کے نوٹیفکیشن کی حیثیت کیا ہے؟ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا مؤقف کیسے مانا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے سوال کے جواب میں سوال کیا کہ سرکاری طور پر ہونے والے رابطہ کاری کو نظرانداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل ضمنی انتخابات میں کچھ نشستیں جیت چکی،اٹارنی جنرل کیا اب آپ کے مطابق وہ پارلیمانی پارٹی ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ کےمطابق سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے؟ منظور عثمان اعوان نے جواب میں کہا کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کیلئے وہ بطور سیاسی جماعت نہیں، آزاد امیدوار صرف اس جماعت میں جا سکتے ہیں جس نے ایک نشست جیتی ہو۔
منظور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں آخری پوائنٹ پر آرہا ہوں،سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن کے اس آرڈر سے رنجیدہ ہے جو پشاور ہائیکورٹ نے برقرار رکھا ہوا ہے،اس عدالت کے سامنے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کیلئےآرٹیکل 187 میں نہیں جا سکتی،سپریم کورٹ اپنے سامنے زیر التوا معاملے پر ہی مکمل انصاف کی طرف جا سکتی ہے،جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہی نہیں اس پر آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے، ہم اگر پوری پکچر نہ دیکھ سکیں تو پھر مکمل انصاف کے اختیار کو کیا کرنا ہے؟ ہم سب کو پتہ ہے اتنے آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے وابستگی دکھا کر کامیاب ہوئے،یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سادہ اپیل نہیں ، عوام کے حقوق کا کیس ہے،آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو قانونی قرار دیں؟یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟اٹارنی جنرل میرے سوال کا جواب دیں،کیا ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو نظر اندا کر دیں،کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے، نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے،جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منسوب نہیں کر رہا، سب ججز کی جو جو رائے ہے وہ ان کی جینوئن رائے ہے۔
اٹارنی جنرل منظور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آزاد امیدواروں نے جب سنی اتحاد کونسل میں جانے کی درخواست دی پی ٹی آئی میں جانے کی دیتے، الیکشن کمیشن درخواست مسترد کرتا تو وہ سپریم کورٹ آجاتے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نےدلائل مکمل کر لئے، فیصل صدیقی آئندہ سماعت پر جواب الجواب دلائل دیں گے،بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔