عالمی بینک نے مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے پاکستان کے ٹیکس محاصل ناکافی قرار دے دیئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کم از کم 15 فیصد ہونی چاہئے جبکہ پاکستان میں صرف 11 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان کے بڑے اور اہم شعبوں سے ٹیکس وصولی بڑھانے کا مطالبہ کردیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اصلاحات کی کئی کوششوں کے باوجود پاکستان میں ٹیکس محاصل کم ہیں، عالمی بینک نے بڑے شعبوں سے ٹیکس وصولی بڑھانے، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹیز پر چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویز دے دی۔
لینڈ اونرشپ ریکارڈ کو قومی شناختی کارڈ اور نیشنل ٹیکس نمبر سے لنک کرنے پر زور سمیت عالمی بینک کی جانب سے پراپرٹی ٹیکس ریٹس میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹیز پر دی جانے والی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز کے ساتھ عالمی بینک نے مختلف اشیاء پر 18 فیصد اسٹینڈرڈ جی ایس ٹی عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان سے سالانہ 6 لاکھ روپے سے کم آمدن والے افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا مشورہ دیا گیا ہے، زراعت، پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ، ری ٹیل، سگریٹس سیکٹر سے اضافی ٹیکس، لگثری اشیاء پر ٹیکس بڑھانے اور درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو ٹیکس چھوٹ کی مد میں ریونیو کا بڑے پیمانے پر نقصان ہو رہا ہے، پاکستان میں کارپوریٹ انکم ٹیکس کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے، پاکستان میں کئی کمپنیوں کو ترجیحی ٹیکس اسکیمز کی سہولت حاصل ہے، پاکستان میں صوبے اپنی صلاحیت سے کم ٹیکس وصول کر رہے۔ رپورٹ میں قراد دیا گیا ہے کہ پاکستان کے مالی استحکام کا دارومدار ریونیو اصلاحات پر ہے۔