کینیا میں حکومت کی جانب سے ٹیکسز میں اضافے کے خلاف ہنگاموں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 10 افراد ہلاک ہوگئے۔
منگل کو کینیا میں ٹیکسز بڑھانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ مظاہرین نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولتے ہوئے ایوان میں آگ بھی لگائی اور گورنر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔
مہنگائی سے تنگ مظاہرین کی جانب سے سپریم کورٹ میں کھڑی گاڑیوں کو شعلوں کی نذر کردیا گیا جبکہ سینٹ اور سٹی ہال بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔
مظاہرین کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کی تجویز دینے والے رکن پارلیمنٹ کی سپر مارکیٹ کو بھی آگ لگادی گئی۔
پولیس نے مظاہرین کو مشتعل کرنے کے لئے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔
صورت حال پر قابو پانے کے لئے ملک کے کئی شہروں میں فوج بھی تعینات کی گئی ہے۔
آن لائن یوتھ موومنٹ کی کال پر احتجاج کے بعد ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین کی جانب سے صدر ولیم روٹو کے استعفے اور نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کینیا کی پارلیمنٹ نے ترمیمی مالیاتی بل کی منظوری دے کر بل صدر کو دستخط کےلیے بھیجا تھا جبکہ بل میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) اور دیگر قرضوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے ٹیکسوں میں2.7 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیا میں احتجاج کوکنگ آئل اور بریڈ پر ٹیکس لگانے سے شروع ہوا، حکومت کوکنگ آئل پر 25 اور بریڈ پر 16 فیصد ٹیکس لگانا چاہتی ہے جبکہ گاڑیوں پر بھی سالانہ 2.5 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز زیر غور ہے۔
اپوزیشن نے حکومت سے تجاویز فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔