ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں اسمگلرز اور ڈالر مافیا کیخلاف ایک مہینے سے جاری کریک ڈاؤن کے نتیجے میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں انٹربینک ڈالر کی قدر میں تقریباً 22 جبکہ اوپن مارکیٹ میں 40 روپے کی کمی ہوگئی ہے۔
بے لگام ڈالر کیسے قابو میں آیا مزید کتنا سستا ہوسکتا ہے؟ حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک کتنا بڑا ہے ؟ اسمگلنگ سونے کے سٹے باز اورکرپٹ سرکاری حکام کے ڈالر مافیا کے ساتھ کیا گٹھ جوڑ ہے؟ کیا ڈالر پھر یوٹرن لے گا؟ یہ ہیں وہ سوالات جو آج کل سب پوچھ رہے ہیں۔
منی ایکسچینج بزنس کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کا ماننا ہے کہ ڈالر کی غیرقانونی تجارت پر اس بار تگڑا ہاتھ ڈالا گیا ہے، ڈالر مافیا کے خلاف اس بار حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے۔ چیئرمین فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن ملک بوستان کا کہنا ہے کہ اس باربینک بھی ڈالر کا ریٹ گرارہے ہیں ڈالر کیونکہ بینکوں کو بھی اس بار سخت پیغام دیا گیا اور اب بینکوں میں بھی مینوپولیشن نہیں ہورہی۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ڈالر پہلے فیز میں دو سو پچاس اور اس کے بعد دو سو روپے سے بھی نیچے آنا ممکن ہے۔ کرنسی ڈیلرز بینکس اور حکومت سمیت اعلی ادارے ڈالر کو پہلے 250 روپے پر لانے پر متفق ہیں اس کے بعد یہ 200 روپے سے بھی نیچے آ سکتا ہے کیونکہ خطے کے دیگر ممالک میں ڈالر 100 روپے کے اندر اندر ہے۔
فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے انکشاف کیا کہ اہم اداروں کے سرکاری حکام کی رشوت، اسمگلنگ اور کرپشن کی بھاری رقوم بڑے پیمانے پر ڈالر اور سونے میں منتقل ہوتی ہیں۔ 500 کلوگرام سونا روزانہ حوالہ ہنڈی کے زریعے خریدا جارہاتھا جوڈالرکی قدربڑھا رہا تھا پاکستان میں تیس ہزار کمپنیاں حوالہ ہنڈی کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ ملک اور دنیا بھر میں پھیلا ہوا حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک منظم انداز سے کام کرتا ہ ےجو اسمگلنگ سمیت ہرقسم کی غیرقانونی تجارت کو ڈالرز کی لائف لائن فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک پر عائد عالمی تجارتی پابندیاں پاکستان میں ڈالرائزیشن کو بڑھاتی ہیں۔ ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن سے روپے کی قدر بحال تو ہو رہی ہے کہ لیکن مستقبل میں بحالی کے اس عمل کو کرنسی ڈیلرز ایران اور افغانستان کے پاکستان سے ملے بارڈرز پر ہونے والی اسمگلنگ سے جوڑتے ہیں۔
جنرل سیکریٹری ای کیپ ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بغیر ویزہ پاسپورٹ ہزاروں لوگ بارڈرز سے آتے اور جاتے ہیں، جن کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اسمگلنگ کا سامان لاتے اور ڈالرز پاکستان سے لے جاتے ہیں۔ کرنسی ڈیلرکے مطابق کریک ڈاون کے بعد ڈالر کی سپلائی 200 فیصد بڑھی ہے ایکسچینج کمپنیاں یومیہ 20 سے 25 ملین ڈالرز انٹر بینک میں فروخت کررہی ہیں۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ انتظامیہ اقدامات سے کرنسی کی غیر حقیقی طلب اور سٹے بازی کو تو قابو کیا جاسکتا ہے تاہم روپے کی قدر میں اضافے اور استحکام کا اصل دارومدار برآمدات بڑھا کر ڈالرز کمانے اوردرآمدات کم کرکے ڈالر بچانے پر منحصر ہے۔