پنجاب میں ہتک عزت کا نیا قانون نافذ ہو گیا۔ پنجاب حکومت نے پنجاب ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ قائمقام گورنر ملک احمد خان نے چند روز قبل ہتک عزت قانون بل پر دستخط کئے تھے۔
قانون کے مطابق ٹرائل سے قبل 30 لاکھ روپے تک ہرجانہ ہوسکتا ہے، ٹریبونل ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر بغیر ٹرائل30لاکھ روپے ہرجانے کا عبوری حکم سناسکتا ہے۔ حکومت اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹریبیونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے۔
ہتک عزت قانون کے مطابق حکومت ٹریبونل کے دائرہ کار کا تعین کرے گی، ہتک عزت ٹریبونل چھ ماہ کے اندر شکایت پر فیصلہ دینے کا پابند ہو گا، خصوصی ٹریبونل 6ماہ میں ایسے افراد کو سزا دیں گے جو ’فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہوں گے۔
ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت ان ہتک عزت ٹریبیونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے، ٹریبونلزکی کارروائی کو روکنے کیلیےکوئی عدالت حکم امتناع جاری نہیں کر پائے گی، کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے 60 دن کے اندر ٹریبیونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے۔
ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
ہتکِ عزت قانون 2024 کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔
مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ، جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔
ہتکِ عزت کے قانون کے مطابق اگر ہتک عزت کی درخواست کسی ایسے شخص کے خلاف ہے جو کسی آئینی عہدے پر فائز ہے تو اس کے خلاف کارروائی ٹریبیونل نہیں کرے گا بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سنگل ممبر خصوصی بنچ کرے گا۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے علاوہ صحافتی تنظیموں نے اس قانون کے منظور کیے جانے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔