آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو سامنے رکھ کر بنائے جانے والے بجٹ سے عوام زیادہ ریلیف کی امید نہ رکھیں۔ نئے مالی سال بجلی گیس مزید مہنگی اور ٹیکسز کی بھرمار ہوگی۔ متوسط طبقہ مزید پس جائے گا۔ اقتصادی ماہرین نے خبردار کردیا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 8 ارب ڈالر تک کے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے بجٹ کی صورت میں عوام کے لیے کڑوی گولیوں کی تیاری آخری مرحلے میں پہنچ گئی۔ 18 ہزار ہزار 900 ارب روپے کا نیا مجوزہ وفاقی بجٹ 9800 ارب روپے کے خسارے پر مبنی ہوگا۔
سرکاری خرچ پورے کرنے کے لیے مہنگائی اور اضافی ٹیکسز کا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ بجلی 5 سے 7 روپے فی یونٹ مزید مہنگی ہوگی ۔مہنگائی سرکاری ہدف12 فیصد سے بہت بڑھ جائے گی۔
ماہر اقتصادی امور اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ جن شرائط کی وہ بات ہورہی ہے میرا خیال ہے کہ کافی مشکلات آنے والی ہیں۔ جو 329 روپے ایکسچینج ریٹ استعمال کر رہے ہیں اس کے اثرات بھی آتے ہیں۔
نئے بجٹ میں ایف بی آر کا ممکنہ سالانہ ٹیکس ہدف 13 ہزار ارب روپے ہوگا جسے پورا کرنے کیلئے اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے مینوفیکچرنگ سے ری ٹیلرز تک پوری سپلائی چین پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس لگانے،ٹھیکیداروں، پروفیشنلز اور کھلاڑیوں کی آمدن پر بھی ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔1080 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی سمیت نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 4800 ارب روپے جمع کرنے کا پلان اس کے علاوہ ہے۔
نئے بجٹ میں درآمدی خوراک، بچوں کے دودھ اور اسٹیشنری سمیت سینکڑوں اشیاء پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجریز ہے۔ پرانی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے اور لاکھوں ری ٹیلرز سمیت متعدد شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا پلان ہے۔
چھوٹے سرکاری ملازمین کوتنخواہوں میں اضافے اورغریب طبقے کو تو بی آئی ایس پی سے کچھ ریلیف مل جائے گا تاہم مڈل کلاس کے لیے مشکلات مزید بڑھنے والی ہیں۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے پیش ںظر بجٹ میں ریلیف کا امکان بہت کم ہونے کی توقع ہے، جو آپ کا مڈل انکم اور ہائی انکم اینڈ گروپ ہے ان کے اوپر پھر بھی ایڈیشنل ٹیکسز اور ایڈیشنل انرجی کے جو ٹیرف ہیں ان کا سامنا ہوگا۔
نئے بجٹ میں ری ٹیلرز، زرعی آلات، بیجوں، کھاد، ٹریکٹرز اور دیگر آلات پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجویز ہے۔ 60 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کو رام کرنا ہے۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق یہ ایک قسم کا پرائر ایکشن ہے کہ پاکستان واقعتاً ان ریفارمز پہ عمل پیرا ہونا چاہے گا اور کسی قسم کی سیاسی کشیدگی جو ہے وہ اس میں آڑے نہیں آئے گی اور جب یہ بجٹ اپروو ہو جاتا ہے تو اس کے بعد پھر آپ کی اگلے پروگرام کیلئے مذاکرات شروع ہونگے مہنگائی تو کم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے اور اس وقت حکومت کا سارا فوکس ہونا چاہئے وہ روپے کی قدر میں استحکام ہے۔
نئے مالی سال قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 9700 ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ ہے۔ دفاع پر 2100 ارب روپے، وفاقی پی ایس ڈی پی کا بجٹ 1221 ارب سے بڑھا کر1500 ارب روپے تک لے جانے کی تجویز ہے۔ مختلف شعبوں کیلئے سبسڈیز کا تخمینہ 1300 ارب روپے لگایا گیا ہے۔