سینیٹر فیصل واوڈا نے مبینہ عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔
فیصل واوڈا نے شوکاز نوٹس کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا تاہم توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں بلکہ مقصدملک کی بہتری تھا۔
فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ عدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے، توہین عدالت کا نوٹس واپس کیا جائے۔ حال ہی میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کو اپنی غطلیاں تسلیم کرنی چاہیئے۔
فیصل ووڈا نے رؤف حسن،مولانا فضل الرحمان،شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں جمع کرا دیئے۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اپریل 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے خلاف توہین آمیز مہم چلی، آرٹیکل 19 اے کے تحت جسٹس بابر ستار کے گرین کارڑ سے متعلق معلومات کیلئے رجسٹرار ہائیکورٹ کو خط لکھا۔ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔
فیصل واوڈا نے مزید لکھا کہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف مہم زور پکڑ رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کیلئے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے، عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ دونوں رہنمائوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دے دیا تھا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 19آزادی اظہار رائے دیتاہےلیکن توہین عدالت نہ کرنے کی قدغن موجودہے، بادی النظر میں فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس توہین عدالت ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور فیصل واوڈا سے 2ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔