پاکستان کو نئے مالی سال بھی ملکی امور چلانے اور 21 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ ضروریات پوری کرنے کیلئے مزید قرض درکار ہے ۔ قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 80 ہزار 862 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ۔ اگلے سال 9700 ارب روپے کی تو صرف سود ادائیگی کرنی ہے۔
قرضوں کی دلدل میں پھنسی معاشی گاڑی کو رفتار پکڑنے کے لیے مزید سہاروں کی ضرورت ہے۔ آئندہ مالی سال بھی پرانے حساب چکانے کے لیے نئے قرضوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2024 تک ملکی قرضوں اور واجبات میں 8400 ارب روپے اضافہ ہوا۔ مجموعی حجم 80 ہزار 862 ارب روپے تک پہنچ چکا، بیرونی ادائیگیاں 130 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں اگلے مالی سال کی 21 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنانسنگ ضروریات قرض کے بغیر پوری کرنا ممکن نہیں۔ ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ اس وقت جو پاکستان کا ڈیبٹ برڈن ہے آئی ایم ایف اکیلا تو اس کو لے کر آگے نہیں چل سکتا۔ آئی ایم ایف دیکھنا چاہتا ہے کہ جن کو ہم فرینڈز آف پاکستان کہتے ہیں وہ کیا تعاون کرتے ہیں ۔ وہ کمٹمنٹس بھی آئی ایم ایف بہت کلوزلی مانیٹر کر رہا ہوگا کہ ان کا حجم کیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ میں قرضوں پر 5 ہزار 517 ارب روپے سود ادا کیا گیا۔ نئے مالی سال 2024-25 کے بجٹ کے مجموعی حجم کا تخمینہ 18 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے۔
نئے مالی سال بجٹ خسارے کا تخمینہ 9600 ارب روپے جبکہ صرف قرضوں پر سود ادائیگی کیلئے 9 ہزار 700 ارب روپے درکار ہوں گے۔ ماہرین کہتے ہیں بڑے مسائل کا مستقل حل صرف قرض اٹھانا نہیں، ٹیکس آمدن بھی بڑھانا ہوگی۔
نئی مخلوط حکومت پہلے بجٹ میں سالانہ ٹیکس ہدف 12 ہزار 900 ارب روپے مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے جسے پورا کرنا کیلئے 1500 ارب روپے سے زیادہ کے نئے ٹیکسز لگانا پڑیں گے۔