سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم سے متعلق اپیل پر سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو کیس کی تیاری کیلئے مواد اور وکلاء سے ملاقات کرانے کی ہدایت کر دی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم سے متعلق حکومتی اپیل پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی نے کیس پر بات کے بجائے آٹھ فروری کے الیکشن کو ڈاکہ قرار دیا تو عدالت نے غیر متعلقہ گفتگو سے روک دیا۔
عدالت عظمیٰ نے بانی پی ٹی آئی کو کیس کی تیاری کیلئے مواد اور وکلاء سے ملاقات کرانے کی ہدایت کی۔
سماعت کے دوران کیس میں حکومتی وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ عدالت نے ریمانڈ کی مدت بڑھانے کے نئے نیب آرڈیننس پر سوالات اٹھائے اور ساتھ ہی ججز نے وزیراعظم کی جانب سے کالی بھیڑیں کہنے کا جواب بھی دے دیا۔
کے پی حکومت کی درخواست مسترد
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پرسماعت کے آغاز میں ہی خیبرپختونخوا حکومت نے کارروائی براہ راست دکھانے کی استدعا کی جس پر ججز نے چیمبر میں ایک گھنٹہ مشاورت کے بعد درخواست چار ایک سے مسترد کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا یہ مفاد عامہ کا کیس ہے ، اسے براہ راست دکھایا جانا چاہیے، تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ مفاد عامہ کا نہیں بلکہ تکنیکی سا مسئلہ ہے۔
نیب ریمانڈ آرڈیننس
دوران سماعت حکومتی وکیل نے نیب ترامیم 2022 کالعدم قرار دینے والے فیصلے کیخلاف دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی ہے، عدلیہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ختم کر کے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ؟ جس پر حکومتی وکیل نے کہا ایسا کچھ نہیں ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں، کیا نیب سیکشن نائن اے فائیو میں بار ثبوت والی شق تبدیل کرکے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی ؟ ، کیا ابھی پھر ایک شخص سے متعلق آرڈیننس لا کر ریمانڈ کی مدت نہیں بڑھائی گئی؟۔
چیف جسٹس نے بھی حکومتی وکیل سے کہا آپ یہاں پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کا دفاع کر رہے تھے مگر ابھی پھر ایک شخص نے ریمانڈ سے متعلق آرڈیننس سے پارلیمنٹ کو نیچا نہیں دکھایا؟، جس پر مخدوم علی خان نے کہا وہ اس آرڈیننس کا دفاع نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس اور عمران خان کا مکالمہ
حکومتی وکیل کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مکالمہ بھی ہوا جس کے دوران بانی پی ٹی آئی نے کہا یہ سپریم نیشنل انٹرسٹ کا معاملہ ہے، آٹھ فروری کو بھی ڈاکہ ڈالا گیا، دو درخواستیں انسانی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ میں موجود ہیں تاہم، چیف جسٹس نے کہا جو کیس ہمارے سامنے اس وقت ہے اسی پر رہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے جیل میں کیس کی تیاری کیلئے مواد اور وکلا تک رسائی نہ ملنے کی شکایت کی تو عدالت نے فوری متعلقہ سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
وزیر اعظم کے بیان کا ذکر
جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے کہا وزیر اعظم نے ججوں کو کالی بھیڑیں کہا ہے، کیا فیصلے پسند نہ آئیں تو جج کالی بھیڑیں ہو جاتے ہیں؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وزیر اعظم کو بتا دیں یہاں کوئی کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کوئی کالی بھیڑیں ہیں تو ان کیخلاف ریفرنس لے آئیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا وزیر اعظم کا بیان عدلیہ کے موجودہ ججز کے بارے میں نہیں تھا۔
بعدازاں، کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔