سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی 28 ستمبر کے سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا وزارت دفاع نظرثانی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔ درخواست گزار شیخ رشید کیلئے نیا وکیل کرنے کی مزید مہلت کی استدعا کی گئی جبکہ درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر 4 پر اعتراض اٹھایا۔
تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ دوران سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال، طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیوں مقرر نہیں ہوئیں؟ دوسرا سوال، نظرثانی درخواستیں واپس لینے کیلئے ایک ساتھ متفرق درخواستیں کیوں آئیں؟ تیسرا سوال، کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے؟ چوتھا سوال، کیا فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا ہے؟
یاد رہے کہ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں مختلف اداروں کی جانب سے نظرثانی کی درخواستیں واپس لینے پر ریمارکس دیے کہ جس فیصلے کو آپ نے غلطیوں سے بھرپور کہا وہ اچانک ٹھیک کیسے ہو گیا؟ کہا ’سچ بولیں کہ اس وقت فرد واحد کے کہنے پر درخواستیں دائر کی تھیں اور اب اپنی آزاد سوچ کے باعث واپس لے رہے ہیں۔
عدالت نے تمام اداروں سے فیصلے پر عمل در آمد کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے فریقین سے کہا کہ وہ اگر مزید کچھ عدالت میں جمع کروانا چاہتے ہیں تو 27 اکتوبر تک کروا دیں۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پرعمل درآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کریں گے لیکن عدالت وقت دے دے۔ عدالت نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 27 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔