وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس سے تکلیف پہنچی، آج جو ریمارکس دیے گئے وہ عدالت کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
اظہار افسوس
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر پاکستانی قوم رنجیدہ ہے اور پاکستانی قوم ایرانی بہن ، بھائیوں کے دکھ میں شریک ہے،انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران ایران کے ساتھ بارڈر کراسنگ سے متعلق معاہدہ کیا گیا اور قیدیوں کے تبادلے کا ایم او یو بھی سائن ہوا۔
کابینہ کمیٹی
وزیر قانون نے بتایا کہ سوشل میڈیا سے متعلق بل کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کمیٹی بنا دی ہے، رانا ثنا اللہ کمیٹی کے کنوینر ہوں گے، سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت آمیز مواد بھی پھیلتا ہے، سوشل میڈیا بل پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہوگی، کوشش کی گئی سوشل میڈیا بل میں کوئی زیادتی نہ ہو اور کمیٹی کا مقصد سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنا ہے۔
لاپتہ افراد
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد سے متعلق پشاور میں سول وعسکری فورسز سے بات چیت ہوئی، لاپتہ افراد کا مسئلہ آج کا نہیں 4 دہائیوں سے چل رہا ہے، خطے میں لاپتہ افراد کا 50 سال سے ایک ہی طریقہ کار رائج ہے، لاپتہ افراد کو تلاش کرنے میں وقت لگتا ہے، سیکڑوں لوگ ہمسایہ ممالک میں ٹریننگ کیمپوں میں ملے جبکہ سیکڑوں لوگ پہاڑوں پر جا چکے ہیں، لاپتہ افراد کی تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے، وفاقی حکومت تفتیش میں ہرممکن مدد کو تیار ہے۔
احمد فرہاد کیس
انہوں نے کہا کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس دیکھے جن سے بہت تکلیف پہنچی ہے، شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے اسلام آباد میں مقدمہ درج ہوا، عدالت نے کہا سارے سیکریٹری آجائیں ، افواج پاکستان کو بلالیں گے، عدالت نے کہا وزیراعظم اور کابینہ کو بلالیں گے، عدالت سے سنسنی خیز خبریں باہر نکلنا غیر مناسب ہے، عدالتوں کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، سنجیدہ مقدمہ سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، آئین وزیر اعظم اور کابینہ کو خصوصی استثنیٰ دیتا ہے۔
لازمی پڑھیں۔ احمد فرہاد بازیابی کیس میں سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع طلب
ان کا کہنا تھا کہ منصف آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے اداروں میں ٹکراؤ ہو رہا ہے، افواج اور عوام نے دہشت گردی کیخلاف جانوں کا نذرانہ پیش کیا، افواج نے سیاسی حکومتوں کے ساتھ دہشتگردی پر قابو پانے کی کوشش کی، ماضی میں دہشت گردوں کو واپس لانے کی کوشش کی گئی، آئین نے انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ کی حدود طے کی ہیں، افواج پاکستان اپنی حدود میں رہ کر کام کرتی ہیں، آئین افواج پاکستان کے بارے میں واضح ہے، سرحدوں کی حفاظت،اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنا افواج کا کام ہے۔