اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان کا کہناتھا کہ ریاستوں کے کچھ حساس معاملات ہوتے ہیں، حکومت یا کوئی ریاستی ادارہ عدلیہ کے آئینی فرائض میں مداخلت نہیں کرتا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سب کو ہی اپنے اپنے دائرے میں ہی رہنا چاہئے، ایگزیکٹو کے اختیار میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اٹَارنی جنرل نے حساس کیس ہونے کی وجہ سےان کیمرہ سماعت کی درخواست کی، سب کو ہی اپنے اپنے دائرے میں رہنا چاہئے، ایگزیکٹو کے اختیار میں مُداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ پر وزیر اطلاعات اعظم عطااللہ تارڑ نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کیمرا بریفنگ کی جائے تو اس پر سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک خط لکھ دیا جاتا ہے کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں، یہ حقیقت پر مبنی بات نہیں ہے،
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاستوں کے کچھ حساس معاملات ہوتے ہیں، حکومت یا کوئی ریاستی ادارہ عدلیہ کے آئینی فرائض میں مداخلت نہیں کرتا، بدقسمتی سے تاثر کچھ ایسا لیا گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ پر کردیا جائے ایسا نہیں تھا، عدلیہ میں مداخلت کے اس تاثر کی پُر زور نفی کرتا ہوں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ایساتاثردیاجارہاہےعدلیہ اورایگزیکٹومیں تعلقات خراب ہیں،پاکستان کو45سال سے سیکیورٹی مسائل کاسامناہے،حساس معاملات میں کمیونیکیشن ضروری ہوتی ہے،سرویلنس کی قابلیت کی بریفنگ ان کیمرہ کردی جائے،حکومت،کوئی اورریاستی ادارہ عدلیہ کےکام میں مداخلت نہیں کرسکتا،اس تاثرکی پرزورطریقےسےنفی کرتاہوں،یہ سمجھاگیاکہ کیس کافیصلہ کسی ایک رخ پرہو،ایسانہیں تھا،اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل آفس اس برج میں فنکشن کرتےہیں،میڈیاسےدرخواست ہےسوشل میڈیاپرموجودخط کےمتن پرتوجہ فرمائیں،میری معلومات کےمطابق کسی اسٹیبلشمنٹ آفیسرنےبراہ راست رابطہ کیا،نہ کرسکتےہیں، وہ رابطہ اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے ہوا، اٹارنی جنرل آفس سے حساس معلومات ان کیمرہ کرنےپررابطہ ہوا۔
وفاقی وزیر قانون
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ لوگوں کوپتہ ہوناچاہیےقانون سازی سےمتعلق کیاہورہاہے؟پارلیمنٹ نےپہلاقانون انکم ٹیکس ٹریبونل کی تشکیل نوکاپاس کیا،2700ارب کےقریب واجبات اسٹےآرڈرزکی نذرہیں،قانون بنایاگیااورآج اس کےرولزبھی پاس کرلئےگئے،تحریری امتحان،انٹرویوز کو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیڈ کریں گے،آج کابینہ نےسرمایہ کاری بڑھانے کیلئےاقدامات انویسمنٹ کے محتسب کا تقررکیاگیاہےتوقع ہےبہت جلدانکم ٹیکس ٹریبونل اوردیگرتقرریاں ہوجائیں گی۔
وزیرقانون نے کہا کہ سوشل میڈیا ریگولیشنز کے حوالے سے بہت چرچا تھا،اسلام آبادہائیکورٹ کےجج کی ٹریول ہسٹری،ٹیکس معاملات سوشل میڈیاپرآئے،ٹیکس گوشوارے کلاسیفائیڈ ہونے چاہئیں،پبلک آفس ہولڈرز کے گوشوارے ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں،خط کےمندرجات سے تاثر دیا گیا خفیہ ادارے ججز کی ورکنگ میں مداخلت کرتےہیں۔
ان کا کہناتھا کہ اٹارنی جنرل نےبڑی وضاحت سےکہایہ کوئی مداخلت نہیں تھی،حکومت نےفوری کمیشن بنایاتاکہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہو،حکومتی،اداروں کامؤقف ہےآزادعدلیہ ہی ملک کو آگے لے کر جاتی ہے،جس قسم کےماحول،چیلنجز کا سامنا ہے وہ انوکھے ہیں،سارے اداروں کو ایک دوسرے کیلئے تھوڑی جگہ رکھنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹوکافرض،دفاع،پارلیمان کاکام بھی ادارےنےکرنا ہے ، عدالتیں فیصلہ کریں قانون سازی،تقرری،خارجہ پالیسی کیاہوتویہ نہیں ہوسکتا،یہ آئین کی منشاہےنہ ہی اس سےملک چلتےہیں،پاکستان کومعاشی بحران سےنکالنےکیلئےسب کوپاکستانی بن کرسوچناہے۔
وزیر اطلاعات
اس موقع پر وزیر اطلاعات اعظم عطااللہ تارڑ نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کیمرا بریفنگ کی جائے تو اس پر سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک خط لکھ دیا جاتا ہے کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں، یہ حقیقت پر مبنی بات نہیں ہے، اگر ان کیمرا بریفنگ کی درخواست قومی سلامتی کی وجہ سے کی گئی تھی اور میں واضح کردوں کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو اتنا آگے لے کر مت جائیے، بات قومی سلامتی کی ہے اور اس ایک معاملے کو لے کر قومی سلامتی لے کر سوال اٹھانا مناسب نہیں، میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ زیریں عدالتوں کے ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ ان پر سخت زبان میں باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ فلاں کیس میں فلاں فیصلہ کرو۔ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے معاملات کو خطوط کے ذریعے اجاگر نہیں کرنا چاہیے، کوئی معاملہ ڈسکس کرنا ہو تو چیف جسٹس فل کورٹ بلا سکتے ہیں، جس چیف جسٹس سے روزانہ ملاقات ہوتی ہو اس کو خط لکھنا معاملے کو متنازع بنانے والی بات ہے۔
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اگر اس مسئلے کو لے کر قومی سلامتی پر سوال اٹھایا جائے گا تو یہ مناسب نہیں ہو گا، کسی نے یہ پیغام نہیں دیا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں، صرف ان کیمرا بریفنگ کا کہا گیا تھا، تو میں سمجھتا ہوں کہ تناؤ کو کم کرنا ہو گا اور تمام اداروں کو اس پر مل جل کر کام کرنا ہو گا۔