سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی جبکہ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی آزاد جج عدلیہ میں آجائے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان پر مشتمل 6 رکنی لارجر بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کا آغاز
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟ جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم 45 منٹ لیں گے اور اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔ فریقین کے وکلا سے پوچھ لیتے ہیں ، انہیں دلائل میں کتنا وقت لگے گا۔
لاہور ہائیکورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کی جانب سے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل کیلئے ایک گھنٹے کا وقت مانگا۔
سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری کے درمیان اختلاف
سپریم کورٹ بارکے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری شہبازکھوسہ کے درمیان روسٹرم پر اختلاف سامنے آیا اور بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کے لئے آدھا گھنٹہ مانگا جبکہ شہباز کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے جس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ ایگزیکٹوکمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ، شہبازکھوسہ پتہ نہیں کیوں اپنی تشہیر چاہتے ہیں،تاہم شہباز کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔
گزشتہ سماعت کا حکمنامہ
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ایک جج کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے وہ پڑھیں۔
اٹارنی جنرل کو پڑھنے میں دشواری پر جسٹس اطہر من اللہ نے خود اپنا نوٹ پڑھا اور بتایا کہ نوٹ میں لکھا ہے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات اصل آرڈر کے پیرا گراف پانچ میں بھی ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس پیرا گراف میں صرف تجاویز مانگنے کی بات تھی۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل کے دلائل
پاکستان بارکونسل کے وکیل ریاست علی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائےہیں ، جوجرم کے زمرے میں آتے ہیں، جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ تمام ہائیکورٹس نے 6 ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ہائیکورٹس نے کہا ہے اب بھی مداخلت ہو رہی ہے بالخصوص سیاسی نوعیت کے مقدمات میں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے، لگتا ہے پاکستان بار نے اپنی تجاویز ہائیکورٹس کے جوابات مد نظر رکھ کر تیار نہیں کیں۔
سب ہائیکورٹس نے خط سے زیادہ سنگین باتیں کہیں، جسٹس اطہر
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا، یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججزنے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت کا ایک سلسلہ جاری اور رجحان ہے ، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں2018 میں کیا کچھ ہورہا تھا، 2018 اور2019 میں ہائیکورٹ کے آزاد ججز کیلئے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی، ہم سب ہائی کورٹس میں رہ چکے ہیں ، ہمیں دیانتدار ہونا چاہیے، سب ہائیکورٹس نے چھ ججوں کے خط سے زیادہ سنگین باتیں کہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ معاملہ اب چھ ججوں کے خط سے آگے جاچکا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس پر اتفاق رائے ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ مداخلت تو ہو رہی ہے مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی، ہمیں وہ حل بتایا جائے کہ ہم کسی کے محتاج نہ ہوں خود کر سکیں، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں ہائیکورٹ کا ایک جج وہ کرے جو سپریم کورٹ نہیں کرسکتی، حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔
مداخلت سے بھی برا عمل کسی کا قتل ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مداخلت سے بھی برا عمل کسی کا قتل ہوتا ہے، معاشرے میں یہ سب چیزیں تو چلتی رہتی ہیں، عدالتی احکامات سے قتل کے جرائم رک تو نہیں جاتے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آج کوئی حکم دے دے قتل ہونا رک جائیں تو وہ رکیں گے تو نہیں، ہم نے اس سے ڈیل کرنا ہوتا ہے سزا جزا ہوتی ہے، کسی کو سزا ملے گی تو دوسرا کہہ دے گا دیکھو سزا ہوئی ایسا نہیں کرناچاہیے، ایک ڈر اور خوف پیدا کرنے کا طریقہ تو یہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی ادارہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ضرور ہوں لیکن میں پوری کونسل نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان بینچ میں ہیں لیکن تین نہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار کا جسٹس اطہر کے دلائل پر اعتراض
صدر سپریم کورٹ بار نے دلائل کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر اعتراض کیا اور موقف اختیار کیا کہ جب یہاں بیٹھ کر ہم کہیں کہ سپریم کورٹ کی ملی بھگت رہی تو ہم اچھا پیغام نہیں دے رہے، مداخلت میں عدلیہ کی ملی بھگت قرار دینے سے عدالت کا وقار کم ہو رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے 76 سال جھوٹ بولا اور سچ کو چھپایا، ہم سب عوام کو جوابدہ ہیں سچ سامنے آنے دیں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے سوال اٹھایا کہ بینچ میں بیٹھ کر ملی بھگت کا اعتراف کرنے کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس جواباً مکالمہ کیا کہ کہہ دیں پھر اگر ملی بھگت ہے تو آپ کا یہاں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملی بھگت کی بات میں نے نہیں اٹارنی جنرل نے کی تھی۔
سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے جس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت کی ہے، اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2019 میں چیف جسٹس اور مجھ پر تنقید کی جاتی تھی، لیکن ایک جج کو تنقید سے بے پرواہ ہو کر کام کرنا چاہیے، 3 نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے ، یہاں ایک کمشنر تھے اور انہوں نے جھوٹ بولا تمام میڈیا نے چلایا، باہر کے ملکوں میں ہتک عزت پر جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، صرف سچ بولنا شروع کریں، سزا جزا کو چھوڑیں۔
شہزاد شوکت نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہائیکورٹ چیف جسٹس اگر مداخلت پر کارروائی نہ کریں تو متاثرہ ججز کو جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کی اجازت دی جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی بمباری کو کیسے ڈیل کیا جائے، کیا توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں؟ جس پر صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ ہونا چاہیے اب نئی ایجنسی بھی بن گئی ہے، کسی جج کی ٹرولنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی، میڈیا کے دوستوں نے مجھے کہا آپ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہے ہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ اس معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ججز کا خفیہ خط پبلک کیسے ہو گیا، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اپنے طور پر ہی خط کے معاملے کو حل کرنا چاہیے تھا۔
ججز کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ججز کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیے، چیف جسٹس اور میں خود بھی اس کا شکار رہے ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ تنقید اور بدتمیزی میں فرق ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی تاریخ میں سب سے سنگین نوعیت کی توہین عدالت کون سی تھی؟ 3 نومبر کو ایمرجنسی لگائی گئی 7 ججز کے حکم کی دھجیاں اڑائی گئیں، عدلیہ عوامی طاقت سے بحال ہوئی لیکن آج تک توہین عدالت لگانے کی ہمت نہیں کی۔
جسٹس اطہر نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکا تو ہائیکورٹ ججز کیسے کریں گے؟، اب توہین عدالت کرنے والے تمام افراد ریٹائر ہوچکے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ صرف پرویز مشرف کا ٹرائل ہوا ہے باقی کسی کو نہیں پوچھا گیا جس پر صدر سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ پرویز مشرف کی سزا سے عدلیہ نے حوصلہ کیوں نہیں پکڑا؟، جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ ہم کہتے ہیں چلیں تھوڑی ہی سہی لیکن سزا تو ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس تو توہین عدالت کا اختیار ہے بیوروکریسی کے پاس وہ بھی نہیں ہے۔
وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے دلائل
وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار احمد حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہوئے، میں نے ایک فہرست لگائی ہے کن کن ممالک میں ایسا ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنے ہیروز کو سراہتے کیوں نہیں ، اس ملک میں جابر آ کر کہتے رہے جو ہم کہتے ہیں وہ کرو،ایسے ہیروز تھے جنہوں نے آگے سے کہا خدا حافظ۔
وکیل احمد حسن نے کہا کہ ہر چیز عدالت خود نہیں کرسکتی، عدلیہ کی آزادی کی ذمہ داری صرف عدالتوں کی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی ہمارا فرض ہے ،آپ نے حلف نہیں لیا میں نے لیا ہے، بہت سارے دباؤ ہو سکتے ہیں ہمیں تنخواہ ملتی اسی کام کی ہے۔
مجھے بھی اپروچ کرنے کی کوشش ہوئی، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں، ایسی صورتحال میں خوف کا تصور کیسے ہوگا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپکو مضبوط کر لے کہ کوئی رابطے کی کوشش نہ کرے، یا پھر کوئی ڈر ہو کہ کرے گا تو یہ ہوگا، اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا، ہم 6 جج بیٹھے ہیں کیا ہمیں اپروچ کی کوشش نہیں ہوئی ہو گی، میں کہتا ہوں مجھے بھی اپروچ کرنے کی کوشش ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں مداخلت ہو بس ہمیں تگڑا ہونا چاہیے؟ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وکیل صاحب آپ دلائل دیں ورنہ ہم آپس میں لگے رہیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ماحول میں کیسے ہو کہ کوئی بھی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، کوئی آزاد جج عدلیہ میں آجائے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جج کی وفاداری اپنے حلف کے ساتھ ہونی چاہیے، ڈرکیسے پیدا کریں گے؟، اس ملک میں سرعام پھانسیاں ہوئیں ڈر پیدا نہیں ہوا۔
سماعت کے دوران آرٹیفیشل انٹیلجنس ججز کا تذکرہ
سماعت کے دوران آرٹیفیشل انٹیلجنس ججز کا تذکرہ بھی ہوا اور وکیل احمد حسن نے کہا کہ اگرہم نہ سدھرے تو ایک تھریٹ ہےکل اے آئی ججز آجائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر مجھے فون آجائیں ایسا فیصلہ کردو میں پرواہ ہی نہ کروں تو میں نےکچھ نہیں کیا، اگر میں اس پر وہ کردوں جو کہا گیا تو یہ مس کنڈکٹ ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مارکیٹ میں کوئی گولی دستیاب نہیں جو مضبوط جج بنائے، ہمیں ایک سسٹم ہی بنانا ہو گا، ہم نے کمپرومائزڈ ججز کیخلاف کارروائی نہیں کی ورنہ آج یہ نہ ہوتا، کمپرو مائزڈ جج کو سسٹم سے منٹ کے اندر باہر پھینکنا چاہیے، جس طرح سب ایک وکیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ہم جج کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، جو جج حق کیلئے کھڑا ہو سب اس کے ساتھ ہوں تو کوئی اس کا کچھ نہیں کر سکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے کوئی نہیں بتا رہا، آج ایک کیلئے مداخلت ہوتی ہے کل دوسرے کیلئے، اس ایشو کو بھی تو دیکھنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر دروازہ ہی نہیں کھلتا تو وہ کیوں آئیں گے ، نظام بنانا ہوگا، ماتحت عدلیہ کے بہت سے واقعات بارے بتایا نہیں جاتا۔
دوران سماعت تین وکلا تنظیموں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی گئی جبکہ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔