افغان طالبان کے 2021ء میں قابض ہونے کے بعد سے جہاں ملک کو دیگر چیلنجز کا سامنا ہے وہاں ملک میں مختلف وبائی وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں
طالبان رجیم کےبعد افغانستان میں عوام بھوک اور افلاس کےساتھ ساتھ کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں
خسرہ وباء پر جہاں پوری دنیا قابو پا چکی ہےوہاں طالبان کےزیرکنٹرول افغانستان میں سہولیات کے فقدان کے باعث اس وباء کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ کے مہینے میں خسرہ کیسزمیں اضافہ ہوا ہے۔
رواں ماہ خسرہ کے علاوہ ڈائریا اور سانس کےانفیکیشن کے کیسز 6 ہزار سے تجاوز کر گئےجبکہ 34 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
طلوع نیوز کےمطابق ویکسین کی عدم دستیابی اور بنیادی حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد نہ ہونےسےخسرہ کے پھیلاؤ کا سبب ہیں،سال 2023 میں افغانستان کےصوبے بدخشاں میں 4 ہزار سے زائد افراد خسرہ وباء کا شکار ہوئے جبکہ 100 سے زائد ہلاک ہوئے،
اقوام متحدہ کےادارے یونیسیف کےمطابق افغانستان میں گزشتہ تین ماہ کے دوران خسرہ سے 29 افراد ہلاک ہو چکےہیں،سال 2024 میں ہی افغانستان میں خسرہ کے 7 ہزارسےزائد کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور 29 سے زائد اموات ہوئی۔
افغانستان میں ملیریا کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہےجس کے باعث ملک کی 27 فیصد آبادی شدید متاثر ہے،2016ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملیریا کی روک تھام کیلئے ریفارمز متعارف کرائے گئے جن پر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مارچ میں افغانستان کے 16 ہسپتالوں کو مالی امداد فراہم کی تاکہ افغانستان مختلف وبائی امراض پر قابو پا سکے۔