علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی
بھارت میں مسلمانوں کی جامعات بھی مودی کےزہریلے پروپیگنڈے کے زیراثر ہیں ،مودی کا گزشتہ 10 سالہ اقتدارفرقہ وارایت اور نفرت کی سیاست پرمشتمل ہے جس نےجامعات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
صدیوں پرانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ پانچ سالوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہے،کئی مسلم اکثریتی جامعات مودی کی دور حکومت میں تشدد اورحملوں کی زدمیں آئی ہیں۔
گزشتہ ہفتےمودی کی مسلم مخالف فرقہ وارانہ تقریرپرتنقید کےباوجود،مودی نے پیر کوعلی گڑھ کےایم پی ستیش گوتم کےلیےمہم چلاتے ہوئے اپنے مسلم مخالف بیانیے کو دہرایا۔
پی ایچ ڈی سکالر کا کہنا کہ''حالیہ برسوں میں علی گڑھ یونیورسٹی میں تنازعات کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے جبکہ بی جے پی کا سیاسی بیانیہ روزگار کے بجائے انتہاء پسندی پر مرکوز ہے''
طلبا کا کہنا ہےکہ تعلیم کا جتنا استحصال بی جے پی نے کیا ہے، کسی اور پارٹی نے نہیں کیا،محدود آسامیوں کے لیے درخواستیں بڑھ رہی ہیں لیکن نوکریاں نہیں ہیں پرائمری ٹیچر کی آسامیاں گزشتہ پانچ سالوں میں نہیں آئیں،پڑھے لگے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ جو آسامیاں آتی بھی ہیں ان پر بی جے پی اپنے بندوں کو لگا دیتی
”ایک جانب نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جاتا جبکہ دوسری جانب بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ سوچ کو پذیرائی دی جاتی ہے
اتر پردیش میں سرکاری آسامیوں کے لیے پیپر لیک ہونے کے واقعات کے بعد سیٹیں اپنے من پسند لوگوں کو دے دی جاتی ہیں لیکن حکومت اس کا نوٹس نہیں لے رہی۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی کی جانب سے طلبہ یونین کے دفتر کی دیواروں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لٹکانے پر شدید اعتراض کیا۔
نومبر 2018 میں بی جے پی کےکارندوں نے الزام عائد کیا کہ علی گڑھ یونیورسٹی طالبان نظریہ پر چلائی جاتی ہے۔
مسلم طالب علم کی نماز جنازہ ادا کرنے پربھی بی جے پی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے بھی طلباء کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں مارچ کے اہتمام پر یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا۔
2019 میں شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بنایا
شہریت بل کے احتجاج پر طلباء کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور یونیورسٹی میں تقریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
بی جے پی کے کارندوں کی جانب سےمودی حکومت کی دوسری میعاد کےلیےحلف اٹھانے پر یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے محض احتجاج پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سےکوئی بھی احتجاج ہوتواسے سیاسی بنادیاجاتا ہےاورپھرطلبہ کودہشت گردکہا جاتا ہےجبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کےطلبہ احتجاج کرتےہیں تو ایسی تنقید نہیں ہوتی،یہ ہمارے اقلیتی ہونے کا سوال ہے اور پورے ملک میں ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارندوں کے دباؤ کی وجہ سے 2018 کے بعد سے طلبہ تنظیم کے انتخابات روک دیے گئے ہیں،مودی کے کارندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں پرحملوں کے علاوہ مرکزی یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کٹوتی میں بھی تیزی آئی ہے جو طلباء کو کم قیمتوں پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔
مودی حکومت کی جانب سے 2014 کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کا بجٹ 15 فیصد بھی کم کر دیا گیا جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669.51 کروڑ روپےسےبڑھ کر 1,303.01 کروڑ روپے کر دیا گیا
مودی کے دور میں تعلیمی اداروں پر حملہ اٹل بہاری واجپائی اور آرایس ایس کی سوچ کا تسلسل ہے،بی جے پی کی جانب سے درسی کتابوں کے ذریعے سکول میں منفی ذہنوں سازی کی گئی
اگر جامعہ یا اے ایم یو کا کوئی طالب علم یونین پبلک سروس کمیشن کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ اسے جہادی کہتے ہیں
حالیہ انتخابی مہم میں مودی سرکار مسلمانوں پر نئے سرے سے حملہ آور ہو کر مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے
بھارت میں مودی سرکارکےاقتدارسنبھالنے کے بعد سےاقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ہدف بنا نا ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہے۔